مالیگاؤں کے مشہورسینئر شاعر
صاؔلح بن تابش کی رحلت
ممبئی:30جولائی. (ندیم صدیقی) مالیگاؤں کے مشہور شاعر(79 سالہ) صالح بن تابش گزشتہ روز طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
صالح بن تابش یکم مارچ1945 کو پیدا ہوئے تھے انہوں نے مالیگاؤں کے ایک میونسپل اسکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور ’مالیگاؤں ہائی اسکول‘ سے ایس ایس سی کا امتحان پاس کیا ، پھر1963 میں انہوں نے درس و تدریس کا عَلَم ہاتھ میں تھاما اور ایک فرض شناس مدرس کے طور پر اپنا تشخص بنایا، ان کے والد قاری محمد نذیر تابش مشاق شاعر کے طور پر اپنے دیار میں ممتاز تھے۔ ان کی نعتوں کی ایک کتاب ’متاعِ تابش‘ شائع ہو چکی ہے۔
روایت ہے کہ صاؔلح بن تابش جب ساتویں درجے کے طالب علم تھے تو انہوں نے پہلا شعر کہا، قاری نذیر تابشؔ مرحوم کی شعری روایت ان کی تیسری نسل تک پہنچی، یعنی صالح مرحوم کے فرزند شہروز خاورؔ بھی ایک شاعر کی حیثیت سے مالیگاؤں میں معروف ہیں۔
صالح بن تابش اِدھر ایک عرصے سے علیل تھے انھیں تنفس کا عارضہ تھا، یہ ایک اتفاق ہے کہ گزشتہ اتوار کو راقم الحروف مالیگاؤں ہی میں تھا ،رات کوئی دس بجے کا عمل رہا ہوگا کہ شناسا ئے ندیم، شاہد انجم نے بتایا کہ صاؔلح بن تابش قریب ہی ایک ہسپتال میں میں زیر ِعلاج ہیں اور وہ مجھے اُس ہسپتال لے گئے، جہاں ہم نے دیکھا کہ ان کے لب اور آنکھیں خموش تھیں پتہ چلا کہ وہ خود سانس نہیں لے پا رہے ہیں بلکہ ایک مشین اِن کو آکسیجن پہنچا رہی تھی،محسوس ہواکہ ان کی حالت غیر ہے، ان کے مذکورہ فرزند خاورؔ میاں نے بتایا کہ معالج نے انھیں گھر لے جانے کو کہا ہے ، ان کی حالت دیکھ کر اور ڈاکٹر کی یہ صلاح سُن کر ہمارا ماتھا ٹھنکا تھا اور بالآخر کل(29 جولائی کو) رات ساڑھے گیارہ بجے عزیزم شاہد انجم کے ذریعے ان کی سناونی ملی۔
صالح بن تابش کو ہم نے پہلی بار1975 میں مالیگاؤں ہی میں سنا تھا، وہ اپنے غنائی تشخص کی بنا پر شعری محفل میں خوب نمایاں تھے، بعد میں اُن سے کئی ملاقاتیں رہیں۔
2021میں اُن کا شعری مجموعہ’’ اندر کا موسم‘‘ منظر عام پر آیا، ان کے مداحوں اور احباب نے ایک اچھی تہنیتی تقریب بھی منعقد کی، جس میں انکے شعری محاسن پر عمائدین ِجلسہ نےشایانِ شانِ دادِ صالح دِی۔
آج صبح صالح کے جسدِ خاکی کو سپردِ لحد کیا گیا۔صالح بن تابش کے پسماندگان میں بیوہ کے ساتھ دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔
صالح بن تابش اپنے پیش رَو بزرگوں کے شعری طور کے شیدا ئی و فدائی تھے ، ان کی شاعری پر رنگینیٔ بزرگاں کا اثر نمایاں تھا مگر ان کے درِ ذہن پر حالاتِ حاضرہ کی دستکیں بھی محسوس ہوتی ہیں،ان کے یہ مصرع ہماری بات کے شہادت بنے ہوئے ہیں:
چہرہ لہو لہو ہے ہر اِک ماہ و سال کا
۔۔۔
یارو ! بڑا شدید ہے موسم ملال کا
صالح بن تابش کا یہ شعر کبھی ا,ُنہی کی زبانی سنا تھا جو اِس وقت ذہن کے چلمن میں فکرِصالح کی تاب و تابش کا مظہر بنا ہوا ہے:
تاریکیٔ تشکیک میں کھو جائیں نہ رستے
شب تاب اُجالوں کا یہ ٹکراؤ عجب ہے —
NadeemSiddiqui