[ad_1]
شمسی سال نو کا آغاز اور مسلمان
موجودہ دور میں سال نو کا آغاز بڑے ہی دھوم دھام سے کیا جاتا ہے، 31 دسمبر کے آتے ہی ہر طرف افراتفری کا ماحول، نیو ایئر کی پارٹیاں، ناچ گانے، شراب نوشی، زنا کاری، آتش بازی، مرد و زن کا اختلاط عام ہو جاتا ہے، گلی محلے میں سجاوٹ ہوتی ہے، ٹھیک 12 بجے کیک کاٹ کر ایک دوسرے کو نئے سال کی مبارکباد دی جاتی ہے، عورتیں، بچے، بوڑھے، جوان سب کھل کر ڈانس کرتے ہیں، بعض لوگ یہ شب نائٹ کلبوں میں گزارتے ہیں، آوارہ قسم کے لوگ نشے میں چور جوان لڑکیوں کو اپنی ہوس کا شکار بنا کر اُن کی عزت کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں، بعض لوگ سڑکوں اور چوراہوں پر ڈی جے بجا کر ناچتے ہیں، غرض کہ دنیا بھر کے تمام گناہ اس نیو ایئر کی پارٹی میں کیے جاتے ہیں اور اس میں صرف غیر ہی نہیں بلکہ خود کو مسلمان کہلانے والے بھی کثرت سے شامل ہوتے ہیں، ان میں سے 90 فیصد طبقہ امیر گھرانوں سے تعلق رکھتا ہے، امیری کا بھوت اس قدر اُن کے سروں پر سوار ہوتا ہے کہ انہیں ہوش تک نہیں رہتا کہ اُن کے گھر کے بیٹے اور بیٹیاں پارکوں، ہوٹلوں، کلبوں اور پارٹیوں میں غیروں کے ساتھ عیاشی کر رہے ہیں، ماں باپ بھی بڑے فخر سے کسی کے پوچھنے پر جواب دیتے ہیں کہ بچے اپنے دوستوں کے ساتھ نیو ایئر کی پارٹی منانے گئے ہیں۔ (استغفر اللہ، نعوذ باللہ من ذٰلک) ہم کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ نیو ایئر کی پارٹیاں عیسائی تہذیب و ثقافت کا حصہ ہیں اور انہیں کی ایجاد کردہ ایک ایسی رسم ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، جس میں اسراف و فضول خرچی، عیاشی و بدمعاشی، زنا کاری، بدکاری، شراب نوشی، آتش بازی، کفار و مشرکین کی پیروی، جیسے کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔
یہ پارٹیاں اگر چہ عیسائیوں کی ایجاد کردہ ہیں، لیکن موجودہ دور میں ہر قوم پوری طرح سے اس قبیح فعل میں مبتلا ہے، جس میں کثرت سے ہمارے مسلمان بھی ملوث ہیں، جن میں عیسائی تہذیب و ثقافت اس قدر رچ بس گئی ہے کہ اُن کو دیکھنے سے لگتا ہی نہیں ہے کہ یہ مسلمان ہیں، افسوس ہم بھول گئے کہ ہمارے پاس ہماری روایات، اسلامی تہذیب اور سب سے بڑھ کر ہمارے پیارے نبی محمد مصطفیٰ ﷺ کی مبارک سیرت موجود ہے جو قدم قدم پر ہماری رہنمائی کرتی ہے، نیکیوں کی ترغیب دے کر بدکاریوں اور گناہوں سے بچاتی ہے۔
آخر نئے سال کے آغاز پر اس قدر خوشی کا اظہار کیوں ؟ ہمیں تو غم منانا چاہیے کہ ہماری زندگی کا ایک سال کم ہو گیا جس کو ہم نے فضول ہی ضائع کر دیا، یہ سوچ کر ہماری فکر اور بڑھ جانی چاہیے کہ ہم اپنی موت کے قریب آ گئے ہیں، تو کیوں نہ اپنی باقی زندگی کو اللہ پاک کے احکامات اور اس کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کے مطابق گزارنے کا پختہ عہد کر لینا چاہیے، لیکن ہمارے حالات اس کے برعکس ہیں، اسی سال نہ جانے کتنے لوگوں کو اپنے بی ہاتھوں سے قبر کے حوالے کیا پھر بھی سال رواں کے اختتام پر اس قدر بے ہوشی کہ ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، ہمیں اپنی زندگی کے ایک ایک لمحہ کی فکر کرنی چاہیے کیوں کہ خدائے وحدہ لاشریک کی بارگاہ میں ایک ایک لمحے کا حساب و کتاب دینا ہے۔ یاد رکھیں! یہ گیا ہوا وقت کبھی واپس نہیں آتا، اسی لیے اس وقت کو غنیمت جانیں، ختم ہونے والے سال پر خوش نہیں بلکہ غمزدہ ہونا چاہیے۔
مسلمانوں کا نیا سال
یقیناً یہ بات کسی سے بھی پوشیدہ نہیں کہ عیسوی سال کی ابتدا و انتہا سے مسلمانوں کا کوئی تعلق نہیں، مسلمانوں کا نیا سال محرم سے شروع اور ذی الحجہ پر ختم ہوتا ہے، جنوری سے نئے سال کا آغاز اور دسمبر پر سال کا اختتام یہ مسلمانوں کا نہیں بلکہ عیسائیوں کا ہے، لیکن افسوس یہ ہے کہ عیسوی سال کے آغاز پر سب سے زیادہ خوشی مسلمان ہی مناتے ہیں، اور طرح طرح کے گناہوں کے مرتکب ہوتے ہیں، مسلمانوں کی بچیاں غیروں کے ساتھ بازاروں، میلوں اور ٹھیلوں پر اپنی عزت و عصمت درندوں کے حوالے کرتی نظر آتی ہیں، اسلامی تعلیمات و احکامات پیروں تلے روند ڈالتی ہیں اور والدین اور اہل خانہ کو منھ دکھانے لائق نہیں چھوڑتیں، ایسے لوگوں کو چاہیے کہ کبھی اپنے حالات پر غور کریں اور سوچیں آخر ہم کب ہوش میں آئیں گے ؟ کیا ہمیں مر کر اپنے اعمال کا حساب نہیں دینا ؟ کیا ہمیں رب کے حضور حاضر نہیں ہونا؟ کیا ہم ایسے کام کرکے رب کے حضور حاضر ہونے کی ہمت رکھتے ہیں؟ ہرگز نہیں، پہلے ہمیں خود کو بدلنا ہوگا، اس طرح کے تہوار، فنکشن اور بے ہودہ پارٹیوں سے قطع تعلق کر کے اپنے دین و مذہب کو اپنا ہدف بنانا ہوگا، اپنا سارا وقت عبادت و ریاضت میں گزار کر اپنے روٹھے ہوئے رب کو منانا ہے، اس کے حضور آنسو بہا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگنی ہوگی۔ ربِّ کریم ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے (آمین)
وقت گزر جانے پر اظہار افسوس کریں:
سال نو کی آمد پر اظہار خوشی کے بجائے سال رواں کے اختتام پر غمگین ہونا چاہیے کیوں کہ آپ کی قیمتی زندگی سے ایک سال کم ہو گیا، اور یہ طریقہ صحابہ کرام اور تابعین عظام رحمہم اللہ کا بھی ہے، جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ: ”میں کسی چیز پر اتنا نادم و شرمندہ نہیں ہوا جیسا کہ ایسے دن کے گزرنے پر ہوا جس کا سورج غروب ہو گیا جس میں میری زندگی کا ایک دن کم ہو گیا اور اس میں میرے عمل میں اضافہ نہ ہو سکا۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: ”اے ابن آدم! تو ایام ہی کا مجموعہ ہے جب ایک دن گزر گیا تو یوں سمجھ کہ تیری زندگی کا ایک حصہ بھی گزر گیا“۔ لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ اپنے اعمال کا محاسبہ کریں، اور نئے سال پر گناہ کرنے کے بجائے رب کی عبادت و ریاضت کریں اور اس سے اپنے گزشتہ گناہوں کی معافی طلب کریں۔
انگریزی نئے سال کی مبارکباد دینا:
نئے سال پر جملہ خرافات سے بچتے ہوئے صرف مبارکباد دینے میں کی کوئی حرج نہیں، جیسا کہ جانشین حضور مفتئ اعظم ہند، حضور تاج الشریعہ، حضرۃ العلام، حضرت علامہ مفتی محمد اختر رضا خاں قادری ازہری علیہ الرحمہ سے اس کے متعلق سوال کیا گیا، تو آپ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ: ’’نئے سال کی مبارکباد دعا کے طور پر دینے میں کوئی حرج نہیں، جبکہ یہودیوں اور نصرانیوں سے نہ کوئی مشابہت ہو اور نہ مشابہت کا ارادہ‘‘۔ اور محقق مسائل جدیدہ حضرت علامہ مفتی نظام الدین صاحب قبلہ تحریر فرماتے ہیں:”نئے سال کی مبارکباد دینے کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ یہ سال آپ کے لیے مبارک رہے، خیر سے گزرے، یہ جائز ہے کہ دعائے خیر کرے“۔ (ملفوظات سراج الفقہاء)
نئے سال پر مسلمان کیا کریں:
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک حدیث مبارکہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: من حسن اسلام المرء تركه مالا يعنيه. ترجمہ: ”انسان کی اسلامی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی اور بےکار کاموں کو چھوڑ دے“۔ اور یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ نیو ایئر کی پارٹیاں بھی بے فائدہ اور بے موضوع ہوتی ہیں، جس کا ضیاع وقت اور کثرت گناہ کے علاوہ دوسرا کوئی اور کام نہیں ہے، آخرت کا تو کوئی فائدہ ہے ہی نہیں، اس پارٹی میں بے شمار نقصانات ہیں، لیکن سب سے زیادہ ہونے والے نقصانات جیسے: پیسے کی بربادی، وقت کی بربادی، عزت و آبرو کا نقصان، اسلامی احکامات کی پامالی جیسے نقصانات شامل ہیں۔ لہٰذا اگر ہم چاہتے ہیں کہ نئے سال کی آمد پر کوئی انتظام کیا جائے تو سب سے اہم کام یہ ہے کہ گزشتہ سال کا اختتام اور نئے سال کی ابتدا اللہ سبحانہ وتعالی کے ذکر سے ہو، تاکہ گزشتہ گناہوں کے ازالے کے توفیق نصیب ہو سکے اور نئے سال کی برکتیں میسر آئیں، اور یہودی ثقافت سے محفوظ رہیں، کیوں کہ قرآن و احادیث میں بہت تاکید کے ساتھ حکم دیا گیا ہے کہ مسلمانوں کو اسلامی تہذیب و تمدن اپنانا چاہیے، اور غیر اسلامی کلچر سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے۔
یاد رہے کہ شمسی تقویم (عیسویں سال) میں سال اور مہینوں کا حساب سورج کی چال سے لگایا جاتا ہے، اس تقویم کے مطابق ہر رات بارہ بجے تاریخ بدلتی رہتی ہے، اور قمری تقویم ہجری سال ہے، اس تقویم میں سال اور مہینوں کا حساب چاند کی چال سے لگایا جاتا ہے، سیدنا فاروق اعظم رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں ریکارڈ کو مضبوط بنانے کے لیے اس ہجری سال کا آغاز فرمایا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی مشاورت سے یہ طے پایا کہ مدینہ منورہ کی طرف حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہجرت والے سال سے آغاز کرتے ہوئے سالوں کا شمار کیا جائے، لہٰذا خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے جاری کردہ کیلنڈر کے مطابق یہ قمری مہینہ چل رہا ہے، اسی لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ عیسویں سال کے آغاز پر گناہوں میں ملوث نہ ہو کر اسلامی سال پر توجہ دیں، اور جملہ خرافات سے توبہ کر کے خود کو بھی روکیں اور اپنے گھر والوں پر بھی سختی کریں، اُنہیں اس طرح کی تقریبات میں ہرگز شریک ہونے کی اجازت نہ دیں، ورنہ بروز قیامت آپ بھی برابر کے سزا کے مستحق ہوں گے۔
[ad_2]
Source link