ہماری سیاست ہمیشہ سے آ ج کل کی طرح اکل کھری تو نہیں تھی۔ ہمارے بزرگوں کی پہچان ایک آدرش بھی تھی۔ پاکستان کی عظمت اور سربلندی کا آدرش اور اس دیس میں بسنے والے بندگان خدا کی خوشیوں اور خوش حالی کا آدرش پھر رت بدلی اور ہماری سیاست میں کونوں کھدروں سے نکل کر کچھ ایسے لوگ بھی جلوہ افروز ہوئے جو انسانوں پر جانور کو ترجیح دیتے اور سری نگر سے چل کر کوئی مہمان آ جاتا تو بھی وہ اس کے سامنے بیٹھ کر تنہا کھانا ڈکار جانے میں حجاب محسوس نہ کرتے۔

ایک طرف زوال کی یہ انتہا تھی لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ہماری خوش قسمتی ہے کہ اسی زمانے میں کچھ ایسے لوگ بھی اس کوچے میں آئے، شرم حیا اور لحاظ مروت سے تو اللہ نے انھیں نوازا ہی تھا، فہم اور دور اندیشی کی نعمت سے بھی مالامال کیا تھا۔ ان دیوانوں میں ایک اکبر ایس بابر بھی ہیں جن کی سبز کرولا پر عمران خان نے اپنے سفر کا آغاز کیا ۔حالات بتاتے ہیں کہ یہ روحیں دو مختلف طبقات میں پیدا ہوئی تھیں یہی سبب تھا کہ ان کے راستے جدا ہو کر رہے۔ عمران خان کی منزل سرکار دربار تھی۔ وہ ایمپائر کی انگلی تھام کر اپنے خوابوں کے تعاقب میں جا نکلے اور بابر صاحب اپنی ان ہی آدرشوں کے ساتھ آج بھی آزمائشوں کے جنگل میں کھڑے ہیں۔ ان ہی بابر صاحب نے قوم کو خبردار کیا ہے کہ اب اس کے خلاف کیا واردات ہو رہی ہے۔

وہ جو خبر دے رہے ہیں، اس میں سازش بھی ہے، دہشت گردی بھی ہے اور خونریزی بھی۔ فقط اتنا نہیں، اس بربادی میں غیر بھی شریک ہیں بالکل اسی طرح جیسے کبھی مشرقی پاکستان میں اپنوں کی کج ادائیوں کے ساتھ غیروں کی جفائیں بھی شامل ہو گئی تھیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ خواب دیکھنے والی نیک روحوں کی برکت سے اس تذکرے میں برہنہ حقیقت سے زیادہ علامت در آئی ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ جن الفاظ میں بابر صاحب ہمیں خبردار کر رہے ہیں، وہی پڑھ لیے جائیں۔ انھوں نے بتایا ہے:

’’  ایک بین الاقوامی ایجنڈے کے تحت تمام ایسی سیاسی اور بظاہر قوم پرست قوتوں کو اکٹھا کیا جارہا ہے جو پاکستان کی سالمیت اور قومی سلامتی کے اداروں کو کسی نہ کسی بہانے چیلنج کر رہی ہیں۔ کچھ طاقتور مغربی ممالک کے سفارت کار اس سلسلے میں پوری طرح متحرک ہیں اور نجی محفلوں میں خیبرپختون خوا اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کو ایسی قوتوں کا ساتھ دینے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ جس کا مقصد ایک مشترکہ پلیٹ فارم تشکیل دے کر پاکستان کے وفاق کے خلاف شیخ مجیب کے چھ نکات کی طرز پر مطالبات کرنا ہے۔ اکتوبر کے مہینے میں اس سلسلے میں اہم پیش رفت متوقع ہے۔‘‘

جس آشوب کی اطلاع ہمارے اکبر ایس بابر دے رہے ہیں، اس کی گہرائی اور گیرائی کس قدر زیادہ ہے، بیان سے اس کا اندازہ ہو جاتا ہے لیکن اس کے باوجود اس سازش کے کرداروں پر اسرار کا سایہ موجود ہے۔ اسرار کا یہ پردہ ایک اور کردار نے کسی قدر سرکایا ہے اور وہ کردار ایسا ہے جس نے یہاں جفا کے کئی پہاڑ توڑے پھر دیار غیر میں جا بسا۔ایم کیو ایم کے بانی نے حال ہی میں ایک وڈیو پیغام جاری کیا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے انھوں نے سیاسی نوسربازی کرتے ہوئے چترالی ٹوپی پہن رکھی ہے اور منٹ بھر تک پشتو میں بات بھی کی ہے ۔ چند الفاظ بولنے کے لیے موصوف نے نجانے کتنے دن تک ریہرسل کی ہو گی۔ اس گفتگو میں تشویش کا ایک پہلو یہ تھا۔انھوں نے افغانستان کے پشتواسپیکنگ لوگوں کو بھی پاکستان اور فوج کے لیے خلاف کھڑے ہونے کے لیے اکسایا۔ بانی ایم کیو ایم یہیں تک نہیں رہے بلکہ پی ٹی ایم اور منظور پشتین کے بھی گن گائے ہیں۔

اکبر ایس بابر صاحب کا انتباہ ذہن میں رکھیے۔ اس کے ساتھ ایم کیو ایم کے بانی کی اپیل اور اس اپیل کے ذریعے سامنے آنے والے پروگرام کی ہلاکت خیزی کو ذہن میں لا کر یہ سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ آخر ایسی کیا قیامت ٹوٹی ہے کہ افغانستان کا سفارت کار بھاگا بھاگا وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور سے ملنے پہنچ گیا۔ بات صرف اسی جگہ رک نہیں گئی، علی امین گنڈا پور یہ بھی کہہ گزرے کہ اب افغانستان کے سلسلے میں وہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے پابند نہیں رہے ہیں لہٰذا اب وہ افغان پالیسی خود بنائیں گے اور خود ہی افغانستان جا کر اور افغانوں سے مل کر فیصلے کیا کریں گے۔

اس قضیے میں ایک منظر نامہ تو وہی ہے جس کی تفصیلات بانی ایم کیو ایم اور علی امین گنڈاپور کی سرگرمیوں سے سمجھ میں آئیں۔ ایک منظر نامہ وہ ہے جس کے تشویش ناک مناظر ہمیں خیبر پختونخوا میں دکھائی دیتے ہیں۔ عسکریت پسندوں کی دہشت گردی اور بھتہ خوری کی باتیں پرانی ہوئیں، اب تو بنوں پولیس کو بھی آمادہ بغاوت کر دیا گیا ہے۔ وہ صرف یونین بازی کا حق نہیں مانگ رہی، وہ پولیو کے قطرے پلانے والی بہادر خواتین کو تحفظ دینے پر بھی آمادہ نہیں۔ بغاوت اور کسے کہتے ہیں؟ یاد نہ ہو تو تاریخ کی چند کتابیں پڑھ کر جان لیجیے کہ مشرقی پاکستان پولیس کے لچھن بھی اسی قسم کے تھے۔ یہ سب تفصیلات سامنے آ جانے کے بعد ضرور سمجھ میں آ جانا چاہیے کہ پاکستان کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔

اب ذرا خیبرپختونخوا سے نکل کر بلوچستان میں جھانکیے تو سمجھنا مشکل نہیں ہو گا کہ ارض وطن کے اس کوچے میں کیوں نادار محنت کشوں کے خون میں ہاتھ رنگے جا رہے ہیں اور کیا سبب ہے کہ اس صوبے کے سمجھ دار اور وضع دار سیاست دان بھی کسی کی بات سننے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتے بلکہ جیسے جیسے انھیں منایا جاتا ہے، وہ مزید روٹھتے ہیں اور بگڑتے ہیں۔

اس خرابہ آباد کی بپتا فقط اتنی نہیں، کچھ اور بھی ہے۔ اس منصوبے کا دوسرا پہلو اس سے بھی بڑھ کر خطرناک ہے۔ ایک طرف سے اگر عسکریت ، خارجہ پالیسی سے انکار اور صوبے کے ذریعے بغاوت کی منصوبہ بندی ہے تو دوسری طرف ریاست و سیاست کو بیچ کھانے کا انتظام ہے تاکہ ریاست اور اس کے ادارے ان سب لوگوں کے سامنے سجدہ ریز ہو جائیں اور بازو مروڑ کر انھیں مجبور کر دیا جائے کہ ان کے انوکھے لاڈلے کی ہر ادا اور ہر خواہش کے سامنے سرخم تسلیم کر کے گھروں کو لوٹ جائیں یا جلا وطن ہو جائیں۔ اگر یہ قبول نہیں تو پھر یاد کریں۔

انوکھا لاڈلا پہلے ہی بتا چکا ہے کہ ملک کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا جائے گا۔ ایٹمی پروگرام سے ہمیں کوئی تعلق واسطہ نہیں اور یہ جو رہ رہ کر ہم پاکستان کو سری لنکا بنا دینے کی دھمکی دیتے ہیں تو یہ بھی ہماری حکمت عملی کا ایک حصہ ہے۔ تو بات یہ ہے بربادیوں کے مشورے بلکہ منصوبے اسی طرح ’آسمانوں‘ میں جاری رہیں گے تو اس ملک کے محافظ ہاتھ باندھ کر تو بیٹھے نہیں رہیں گے۔ یہی سبب تھا کہ ایک واقعے کے بعد جسے ماورائے آئین بھی گردانا گیا تھا، خواجہ آصف نے آئینی انہدام کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ یہ خدشہ ابھی ٹلا نہیں، کچھ مزید بڑھ گیا ہے۔ یہ خدشہ حقیقت بنتا ہے تو یہ بھی لکھ کر رکھ لیجیے کہ اس کے ذمے دار وہی لوگ ہوں گے جو صوبے میں بغاوت کے ذریعے اور مختلف حربوں سے بازو مروڑ کر بات منوانے کے درپے ہیں۔





Source link

By admin