[ad_1]
تعصبات ومنافرت مسئلے کا حل ہرگز نہیں
ہندوستان واحد ایسا ملک ہے جہاں کثیرتعداد میں متنوع مذاہب ومسالک پائے جاتے ہیں اور لطف کی بات یہ ہے کہ تمام مذاہب ومسالک کے ماننے والے ایک دوسرے کا دل وجان سے احترام بھی کرتے ہیں، پھرمذہبی تہواروں کے مواقع پر ایک دوسرے کے ساتھ مبارکبادی کا تبادلہ اِس احترام و محبت کے رشتے کو اَور بھی مضبوطی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا ملک قومی یکجہتی، مشترکہ تہدیب وتمدن، اُخوت ومروت، محبت و یگانگت اور اِنسانیت نوازی کےفریم میں عالمی سطح پر بھی سرفہرست نظر آتا ہے۔ لیکن صد اَفسوس کہ گزشتہ چند برسوں سے تعصبات ومنافرت کے سوداگروں نے اپنی نفع خوری کے چکر میں ہمارے ملک کا سارا ماحول مکدر کررکھا ہے۔ آج کل ملک میں جس طرف بھی نگاہ اُٹھتی ہے مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصبات ومنافرت کا وحشت ناک منظر دِکھائی دیتا ہے۔ حال یہ ہے کہ آٹھوں پہر، یہ خدشہ لگا رہتا ہے کہ پتا نہیں کب اورکس وقت فرقہ وارانہ ہم آہنگی، فرقہ پرستی میں تبدیل ہوجائے اوراَمن وآشتی اور محبت ویگانگت میں شرابور ہمارا یہ ملک، تعصبات ومنافرت ا ور تشدد کی آگ میں جھلسنے لگے۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اِس قدر تعصبات ومنافرت آمیز ماحول کا ذمہ دار کون ہے؟اکثریت و اقلیت یا پھرسیاسی قائدین؟ یہ تمام پہلو اِنتہائی حساس اور قابل غور پہلو ہیں۔ سردَست موٹے طورپر اِس سوال کاجواب تلاش کیا جائے تو ہم میں سے اکثر افراد یہی کہتے نظر آئیں گے کہ ملکی ومعاشرتی اور مذہبی سطح پر تعصبات ومنافرت اورتشدد کے اصل ذمہ دار سیاسی قائدین ہیں اوریہ بات ایک حد تک درست بھی ہےکہ اُنھیں کے ورغلانے سے اکثریت واقلیت ایک دوسرے کے خلاف زہر اُگلتے ہیں اور برسرپیکار رَہتے ہیں۔ لیکن اگر اِیمانداری، انصاف پسندی اور خوداِحتسابی کے ساتھ اِس پہلو پرغورکیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی نظر آئےگی کہ ملکی ومعاشرتی اور مذہبی سطح پرسیاسی قائدین کی بجائے تمام ترمنافرت وتعصبات اور تشدد کے ذمہ داراَکثریت واقلیت طبقات بذات خود ہیں۔ وہ اِس طورپر کہ ہردوطبقات اپنے گھریلو معاملات ومسائل میں تمام تر فیصلے بذات خود لیتے ہیں اور اگر کچھ دقتیں پیش آتی ہیں تو اَپنے سرپرستوں، اَحباب واقارب یا پھر اَپنےسماج ومعاشرے کے معتمد علیہ افرادسے مشورہ لیتے ہیں، لہٰذا جب گھریلو معاملات ومسائل میں فیصلہ لیتے وقت اُنھیں افراد سے مشورہ لیاجاتاہے جو ہر دو طبقات سے قریب تر ہوتے ہیں اور جنھیں ہر دو طبقات بخوبی جانتے ہیں اور جن پر انھیں کامل اعتماد رَہتا ہے کہ اُن کا مشورہ اُن کے حق میں غلط نہیں ہوگا۔ نیزاگر یہ معلوم ہوجائے کہ فلاں شخص لڑنے-لڑانےمیں یقین رکھتا ہے اور وہ مذہباً منافرت پسند، فرقہ پرست اورتشدد مزاج رکھتاہے تو اَیسے انسان سے گھریلو معاملات و مسائل میں مشورہ لینا کوئی بھی گوارا نہیں کرتا۔ لیکن حساس ترین مذہبی و سیاسی معاملات و مسائل میں فرقہ پرستوں اور مذہبی تشدد پسندوں سے ہی مشورہ لیتے ہیں، اُنھیں کو اہمیت دیتے ہیں اِس کے برعکس اپنےسرپرستوں، احباب واقارب اورمعتمدعلیہ سماج ومعاشرے کو نظر اَنداز کردیتے ہیں، کیوں؟ لہٰذا جس طرح گھریلو معاملات ومسائل میں شدت پسندوں، فتنہ بازوں اور فسادی مزاج لوگوں سے مشورہ نہیں لیاجاتا، بعینہ مذہبی اورسیاسی معاملات ومسائل میں بھی اگرمذہبی منافرت پسند اور فرقہ پرست سیاسی قائدین کو نظرانداز کردیا جائے اور اُن کے مشوروں کو ہرگز اہمیت نہ دی جائے تو اکثریت واقلیت کے درمیان مذہبی منافرت و تعصبات کی جودِیواریں کھڑی کی جاتی ہیں یقیناً وہ ریت کی دیواریں ثابت ہوں۔
ایک قابل غور پہلو یہ بھی ہے کہ آج کل جس طرح سے متعصبین و حاسدین کے ذریعے سیاسی قائدین کے بہکاوے میں آکر مذہبی منافرت وتعصبات کا اظہار کیا جاتا ہے اور بالخصوص جولوگ قومی املاک کو تباہ و برباد کرنے کے درپے رہتے ہیں، یافسادات مچاتے ہیں اور اَپنے ہی ملکی برادران کو جانی ومالی نقصان پہنچانے میں یقین رکھتے ہیں، تو اُنھیں معلوم ہونا چاہیےکہ اِس طرح کے تمام ترنقصانات کی تلافی انھیں کے اَموال کے ذریعے ہی کی جاتی ہے۔ وہ اِس طور پر کہ ٹیکسز کی شرحوں میں اضافہ کردیا جاتا ہے۔ روزمرہ کے استعمال کے سامان مہنگے کردیے جاتے ہیں۔ ایک معمولی سوئی سے لے کر جہاز کے غیر معمولی پُرزے کی خریداری پر بھی ٹیکس در ٹیکس لیا جاتاہے۔ یہاں تک کہ بینکوں سے نقود نکالنے اور جمع کرنے پر بھی کبھی جی ایس ٹی اورکبھی سروس چارج کی صورت میں ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔ جن پکی سڑکوں اور شاہراہوں پروہ چلتے ہیں اُن کے اخراجات بھی ٹول ٹیکس کی شکل میں اُنھیں سےوصول کیے جاتے ہیں۔ اِس لیے کسی بھی طرح کی جانی ومالی اور قومی املاک کو نقصان پہنچانے سے پیشتر ہزار بار سوچنا چاہیے اور اِس پہلو پربھی نظر رکھنی چاہیے کہ سیاسی قائدین جب بھی کبھی مذہبی منافرت وتعصبات پھیلانے کی کوششیں کریں اور ملکی وملی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو توڑناچاہیں، تو اَیسے مواقع پرمحض اتنا سوچ لینا چاہیے کہ جس طبقے کے خلاف منافرت کی بات کہی جارہی ہے، زندگی میں وہ کہاں کہاں کام آتا ہےا ور مزید کہاں کہاں کام آسکتا ہے، چوبیس گھنٹے میں کتنی باراُس سے آمنا سامنا ہوتاہے، اور کیا اس طبقے کے خلاف اظہار منافرت کرنے کے بعد اُس سے آنکھیں ملانا آسان ہوگاوغیرہ۔ یا کم سے کم اتنا ضرور سوچ لیا جائےکہ آج جس طبقے کے خلاف لوگ ہجومی زورآزمائی کررہے ہیں اورجس فرقے کو نقصان پہنچانے کےلیے منافرت کی راہ اختیار کررہے ہیں ، تو خدا نخواستہ اگروہ بذات خود یا اُن کا اَہل خانہ، یاپھراُن کے احباب واقارب کبھی اُسی طبقے کے ہتھے چڑھ گئے جس کے خلاف اُنھوں نےہجومی زورآزمائی کی ہے، تو اُس وقت کامنظرکیا ہوگا؟ اِس کے ساتھ ساتھ اگر مذہبی اورفرقہ وارانہ تعصبات ومنافرت کےباعث ہونے والے نفع ونقصان پر بھی ایک سرسری نظرڈالی جائے، تو بلاشبہ ہرطرح کی منافرت و تعصبات کا خاتمہ آسانی سے کیا جاسکتا ہےاوربڑے سے بڑے مشکلات ومسائل چٹکیوں میں حل کیے جاسکتے ہیں۔
بہرحال اکثریت واقلیت ہر دو طبقات اگر تعصبات ومنافرت سے مکمل طور پر بالاتر ہوجائیں اور ہر سطح پرنفرت انگیز اورتعصب آمیز جلسہ-جلوس سے کنارہ کشی کرنے لگ جائیں، توبلاشبہ ہمارا ملک و معاشرہ نہ صرف تعصبات و منافرت کے گڑھے میں گرنے سے محفوظ ومامون رہے گا بلکہ شدت پسندوں کی تمام تر سازشیں بھی دھری کی دھری رہ جائیں گی۔ علاوہ ازیں ملک ومعاشرے میں ہرطرف اَمن وآشتی، قومی یکجہتی، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور آپسی اُخوت ومروت کا دلکش و خوشگوار نظارہ دیکھنے کو ملےگا، بشرطیکہ اجتماعی طور پر ہرطرح کے تعصبات و منافرت سے توبہ کرلیا جائے کہ یہ سب کسی بھی مسئلے کا حل نہیں۔
ہو زہر میں خلوص تو پی جاؤں شوق سے
امرت ہو بے خلوص تو ٹھوکر سے مار دوں
[ad_2]
Source link