[ad_1]
زبان ہر قوم کی پہچان ہوتی ہے۔ زبان کی ترقی وعروج ہی سے قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہوتی ہے۔ زبان کا محور صرف لسانیت تک محدود نہیں بلکہ وہ احساسات، جذبات اور شعور و آگہی کے تعبیر سے عبارت ہے۔ وہ زبان بڑی خوش نصیب ہوتی ہے جس زبان کی آبیاری کرنے اس کی ترقی و ترویج اور مادری زبان کے دودھ کا قرض چکانے کے لیے اس کے سپوت دلوں کا سکون اور راتوں کی نیند جلا کر زبان کی خدمت کے لیے ایک ایک حرف لڑیوں میں پرو کر زبان کا ہار سنگار کرتے ہیں۔ نیز اسے بام عروج تک پہنچا کر ہی سانس لیتے ہیں۔ ان خوش بخت زبانوں میں اردو زبان نمایاں ہے۔ جو اپنی حلاوت اور چاشنی کی وجہ سے عالمگیر شہرت حاصل کرچکی ہے۔ ہم آج اس پیاری و میٹھی زبان کی رعنائی ودلآویزی یا حسن وجمال نہیں بلکہ اس کی گراں قدر خدمات اوراس کے ناقابلِ فراموش مساعی جمیلہ بیان کرنا چاہتے ہیں۔ وہ بھی ایسی گراں قدر خدمات جس کی وجہ سے آج ہم کھلی فضا میں سانس لے رہے ہیں یعنی جنگ آزادی میں اردو کے جیالے ادباء، شعراء اور مصنفین کی خدمات جلیلہ۔
جنگ آزادی میں ہندوستان کے تمام باشندے بلا تفریق مذہب وملت شریک رہے اور اپنی اجتماعی کوششوں کے ذریعے انگریزوں کے چنگل سے وطن عزیز کو آزاد کیا۔ ہم اس وقت ان تمام مجاہدین آزادی کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے اپنے وطن مالوف کے خاطر اپنی جان کی بازی لگادی اور اس دھرتی کو غلامی کی زنجیر سے چھڑایا۔ ان میں ہماری پیاری زبان اردو اور اردو داں شعراء اور ادباء کا نمایاں حصہ ہے جسے ہم کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔ جب ہم تحریک آزادی کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات ماہ نیم روز کی طرح عیاں وبیاں ہوتی ہیکہ تقریبا 375شعرائے اردو نے تحریک آزادی میں حصہ لیا تھا۔ جنہوں نے آزادی کے لیے اپنا تن من دھن سب کچھ داؤ پر لگا دیا ایسے شعراء بھی تھے جو زندگی میں عیش وعشرت کو خیرآباد کہہ گئے اور اس دریائے خون کے شناور بن گئے۔انہوں نے قلم سے تلوار کا کام لیا اور انگریزوں کے خلاف بہترین غزلیں اور نظمیں لکھیں۔ایسے مشکل حالات میں بھی نہ ان کی پیشانی پر سلوٹیں آئیں نہ شکن پڑے۔مصیبتیں جھیلیں اور قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ ان قید وبند والی زندگیوں سے وہ خوش وخرم ہی نہیں بلکہ نازاں تھے کہ ہماری نوکِ قلم تیغ وسنان کا کام کرگئی۔ انگریزوں کے لیے یہ جیالے شعراء و ادباء آفت جان بن گئے تھے۔ان کی راتوں کی نیند اڑ گئی تھی۔انگریز ہمہ وقت اس فکر میں رہتے کہ کس طرح ان کا قلم ان سے چھینا جائے؟؟؟کس طریقے سے ان کہ زبان پر تا لے لگائے جائے؟؟؟اسی سعی ناتمام کا نتیجہ کہیے کہ اردو کے بہت سارے شعراء 1857کی تحریک آزادی میں بڑی مشکلات کا سامنا کیا۔لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنا حوصلہ نہیں ہارا اور علمی طور پر جنگ آزادی میں اپنابھرپور کردار ادا کیا۔
ہندوستان کی آزادی کے لیے کی جانے والی کوششوں میں اگر ہم اردو داں طبقے کی ہمت و بہادری کی داستانیں سنیں اور پڑھیں تو عش عش کرنے لگ جائیں۔ ان کی یہ قربانیاں ہمیں بھی خود کو محاسبہ کرنے پر ابھارتی ہیں کہ ہم نے تواب تک کچھ کیا ہی کہاں ہیں؟؟؟ اوراب بھی کیا کر رہے ہیں؟؟؟۔ پہلی جنگ آزادی کے وقت سلطنت مغلیہ کے آخری تاجدار مرد قلندر وسکندر شاعر زمانہ عزت مآب سلطان بہادر شاہ ظفر کے زمانے تک دہلی میں بیسیوں باکمال شاعر جمع ہو گئے تھے ان میں امام بخش صہبائی، ابراہیم ذوق،مفتی صدر الدین آزردہ،سید کفایت علی کافی مراد آبادی،مرزا اسد اللہ خان غالب، مصطفی خان شیفتہ، حکیم آغا جان بخش جیسے کہنہ مشق استاد شعراء موجود تھے جو تحریک آزادی میں اپنے فن کی خوشبو کو پھیلائے ہوئے تھے۔ دوسری جانب آزاد، حالی، داغ، بخش، صابر، شہاب الدین ثاقب،سالک، مجروح، مرزا نور، باقر علی، کامل وغیرہ جیسے نو عمر شعراء بھی تحریک آزادی میں اپنا کردارنبھانے کے لیے آمادہ تھے۔
بہادر شاہ ظفر آخری مغل حکمراں تھے لیکن اردو ادب میں بھی وہ اعلیٰ مقام رکھتے تھے۔ تاریخ پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انگریزوں کی غلامی کا دور ہندوستان اور بہادر شاہ ظفر دونوں کے لیے ہی ظلم و استبداد سے بھرا ہوا تھا۔ انہوں نے پہلی جنگ آزادی کی قیادت وسرپرستی کی اس جرم میں وہ گرفتار کیے گئے۔ انہوں نے اپنی صفائی پیش کی۔ لیکن انگریزوں نے ان کی ایک نہ سنی اور 7 اکتوبر 1858 کو انہیں رنگون(میانمار) شہر بدر کردیا گیا۔ وہاں قید کی زندگی ان کے لیے پریشان کن گزرنے لگی اور ضعیفی کے سبب بھی ان کے حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔ بالآخر 87 سال کی عمر میں بمطابق 7 نومبر 1862عیسوی کو انہوں نے آخری سانسیں لیں اور غلامی کی زندگی سے آزاد ہو گئے۔آزاد تو ضرور ہوئے لیکن اس وطن کی بڑی فکر دامن گیر تھی۔ اپنی لاغری اور ضعیفی میں بھی وہ کہتے تھے۔
الہی موت بھی آئے وطن کی رنگین گلیوں میں
جہاں مردوں کو آنچل کے کفن پہنائے جاتے ہیں
بہادر شاہ ظفر نے جلاوطنی میں بھی اپنے شعری ذوق کو پروان چڑھایا۔ اس دوران انہوں نے جو غزلیں لکھیں۔ ان میں استعاراتی انداز اور جمالیاتی اسلوب کو بھرپور استعمال کیا۔اشعار کے ذریعے آپ اپنی دلی کیفیتوں کا عکس پیش کرتے رہے اور وطن کی محبت کا راگ الاپتے رہے۔ آخری ایام میں وہ اپنا کرب والم سناتے تھے۔ مندرجہ ذیل سطریں آپ کے ذہنی کرب، احساس اور بے بسی کے شاہد ہیں:
لگتا نہیں ہے دل مرا اجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالم ناپائیدار میں
ان حسرتوں سے کہہ دو کہیں اور جا بسیں
اتنی جگہ کہاں ہے دل داغدار میں
بلبل کو باغباں سے نہ صیاد سے گلہ
قسمت میں قید لکھی تھی فصل بہار میں
کتنا ہے بد نصیب ظفرؔ دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
دیگر شعرا کا حال بھی آپ سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھا۔ شاعر فطرت حسرت موہانی جنہوں نے آمادی کے متوالوں کو سب سے پہلے”انقلاب زندہ باد“ کا نعرہ دیا تھا،انہیں بھی تحریک آزادی کے دوران جیل جانا پڑا انہوں نے جیل کے اندر یہ خوبصورت شعر کہا تھا:
ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشہ ہے حسرت کی طبیعت بھی
جنگ آزادی کے دوران مجاہد آزادی ویر بھگت سنگھ کی زبان پر بسمل عظیم آبادی کا یہ شعر
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
تیر رہا تھا جس نے انگریزوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ آزادی کے ان سرپھروں کے روم روم میں آزاد ہندوستان کا جو خواب بس گیا ہے اس کو بندوق کی گولیوں اور پھانسی کے پھندوں سے روکا نہیں جا سکتا۔بھگت سنگھ نے جو نعرہ لگایا تھا یعنی”انقلاب زندہ باد“وہ حسرت موہانی کا ہی دیا ہوا جاندار نعرہ تھا۔یہی وہ نعرہ تھا جس نے باشندگان وطن میں آزادی کی گرمی اور حرارت پیدا کردی تھی۔ ویر بھگت سنگھ ہمیشہ یہ نعرہ لگایا کرتے تھے اور ویروں کا جوش دوبالا کرتے تھے۔اسی تناظر میں شاعر مشرق علامہ اقبال کے یہ اشعار بھی باصرہ نواز کیجیے کہ کس طرح آپ وطن کے باشندوں کے دل میں جنگ آزادی کی روح پھونک رہے ہیں۔
وطن کی فکر کر ناداں، قیامت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔
یہی وہ اشعار تھے جن کے ذریعے لوگوں کے اندر آزادی کی فکر اور حمیت پیدا ہوئی اور لاکھ مصیبتیں آنے کے باوجود ان کے چہرے پر کوئی شکن نہیں پڑے۔ شاعروں کے اس گروہ میں ممتازادیب اور شاعر انقلاب مجاز لکھنوی بھی پیچھے نہیں تھے۔ ان کے اشعار کوپڑھیں تو انذازہ ہوجائے گا کہ کس طرح شعراء جنگ آزادی کے لیے ابھارتے تھے۔
جلال آتش برق شہاب پیدا کر
ازل بھی کانپ اٹھے وہ شباب پیدا کر
تو انقلاب کی آمد کا انتظار نہ کر
جو ہو سکے تو خود انقلاب پیدا کر
اور یہ حقیقت ہے کہ شاعر لیڈر نہیں ہوتا، وہ ہر واقعہ کو انقلاب اور ہر موج کو طوفان نہیں بنا سکتا۔ لیکن وہ طوفان و انقلاب کے لیے فضا تیار کرتا ہے۔ وہ دلوں کی ان گہرائیوں میں اترتا ہے جہاں آرزوئیں کروٹ لیتی ہیں اور ان تاریک گوشوں میں ایک بڑے نصب العین کی شمع جلاتا ہے۔ یہ شمع جب ایک دفعہ جل گئی تو گل نہیں ہوتی، یہ بنیادیں ایک دفعہ استوار ہو گئیں تو کوئی آندھی انھیں مسمار نہیں کر سکتی۔ اس لیے شاعر اور ادیب کے لیے ضروری نہیں کہ ہر سیاسی واقعے پر نظم لکھے اور ہر نئے قدم کو ابدی ٹھہرائے۔ یہی شعراء تھے جنہوں نے باشندگان وطن عزیز کے دل کے نہاں خانوں میں اتر کر انقلاب پیدا کیا تھا۔
پہلی جنگ آزادی کے بعد ہندوستان کے اس سرے سے اس سرے تک جو نظمیں لکھی گئیں، جو گیت گائے گئے، جو مضامین شائع ہوئے، جو کتابیں چھپیں، ان میں اردو شاعروں اور ادیبوں کا کارنامہ نہایت وقیع اور مہتم بالشان ہے۔ اس کے اثر سے پورے ہندوستان میں بالخصوص شمالی ہند میں بچوں، جوانوں اور بوڑھوں سب کے دل میں وطن کی محبت اور آزادی کا خیال راسخ ہوا اور پھر یہ انمٹ نقوش کسی طرح زائل نہ ہو سکے۔اسی شررسے چنگاری اٹھی اورپھر اسی چنگاری نے شعلہ بن کر انگریزوں کے شیش محل کو خاکستر کردیا تھا۔ اگر میں یہاں صرف اردو شعراء کا ذکر کروں تو یہ مضمون میرے لیے ناکافی ہے۔کیونکہ
شکارِ ماہ کہ تسخیرِ آفتاب کروں
میں کس کو ترک کروں، کس کا انتخاب کروں
جنگ آزادی میں ان گنت شعراء کرام نے حصہ لیا اور اپنی جان کی قربانی پیش کی۔ جن میں شبلی نعمانی،اکبر الہ آبادی،مزرا سد اللہ غالب، میر تقی میر، خواجہ الطاف حسین حالی، شوق قدوائی، پنڈت برج نارائن چکبست، سیماب اکبرآبادی، اسماعیل میرٹھی، وحید الدین سلیم، فیض احمد فیض، مخدوم محی الدین، جوش ملیح آبادی، ساغر صدیقی، حفیظ جالندھری، مولانا محمد علی جوہر ایسے روشن وتابندہ نام ہیں جو تحریک جنگ آزادی کے صفحات پر آج بھی اپنا جلوہ بکھیر رہے ہیں۔
اگر ہم ترقی پسند شعراء کا ذکر کریں گے تو یہ مضمون کافی طول پکڑ لے گا۔ مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر دو عظیم شاعروں پر اکتفا کرتے ہیں جنہوں نے آزادی کے لیے تن من دھن کی بازی لگادی تھی وہ اور کوئی نہیں مخدوم محی الدین اور فیض احمد فیض ہیں۔ فیض اور مخدوم بھی انگریزی بربریت اور ظلم و تشدد سے شدید ناراض تھے دونوں نے تحریک آزادی سے متعلق خوبصورت اور اثر انگیز نظمیں لکھی تھی مخدوم کی نظم ”چاند تاروں کا بن“ اور فیض احمد فیض کی نظم ”صبح آزادی“ نے اس وقت کے آزادی کے پروانوں میں ایک جوش اور ولولہ بھر دیا تھا دونوں کی نظموں میں آزادی کے متوالوں کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ وہ یہ جنگ اس وقت تک لڑتے رہیں جب تک کہ آزادی نہیں مل جاتی۔انہیں کے جذبات و احساسات تھے کہ باشندگان وطن نے آخر آزادی کا پروانہ حاصل کیا۔ ورنہ یہ تصور ہی محال تھا۔ اب یہاں ہم اردو کے کچھ نثر نگاروں کا بھی تذکرہ کرنااپنا فریضہ سمجھتے ہیں جن کی تحریریں تلوار سے زیادہ کام کرگئیں۔ ایسی تحریریں جن کی ایک ایک سطر سے تحریک آزادی کا جوش ابل رہا تھا جن کی ایک ایک لفظ سے حریت وحمیت کے سوتے پھوٹ رہے تھے۔ ان بہادر سپاہیوں میں پریم چند، سعادت حسن منٹو، علی عباس حسینی، کرشن چندر، عصمت چغتائی اور راجندر سنگھ بیدی وغیرہ ایسے نام ہیں جنہوں نے اُردو میں اپنی لازوال تحریروں سے ملک کی آزادی کا پرچم بلند کیا۔ انہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعہ انگریزوں کی سازشوں کو بے نقاب کیا۔ یہی وجہ ہے کہ پریم چند کے پہلے افسانوی مجموعہ ’سوزِ وطن‘ (1905) کو انگریزوں نے ضبط کر کے اس پر پابندی لگا دی تھی۔ اور ایسے ہی منٹو کی منتخب کہانیوں میں ’تماشہ‘، ’نیا قانون‘ وغیرہ میں بھی انگریزوں کے تشدد اور عام آدمی کی تکلیف کو دکھایا گیا جس نے لوگوں میں آزادی کی سوچ اور بیداری پیدا کی تھی۔ جس کے نتیجے میں منٹو پر قانونی شکنجہ کسا گیااورانہیں قید وبند کی اذیتیں برداشت کرنی پڑیں۔
انگریز کے خلاف نبردآزما ہونے والوں میں ابوالکلام آزاد کا نام بھی سر فہرست آتا ہے۔ آزاد اس وقت کے پر آشوب دور میں اردو کی ادبی فضا میں داخل ہوئے اور اپنی آتش نفسی سے اردو نثر کو طوفان کا جوش اور پہاڑی چشموں کا جلال عطا کیا۔ ابو الکلام سے پہلے مذہب، سیاست، ادب سب کے خانے الگ الگ تھے۔ ابوالکلام نے مذہبی احساس کو سیاسی شعور اور سیاسی شعور کو ادبی رنگ دیا۔”الہلال“ اور ایسے ہی”البلاغ“ نے ہندوستان کے مسلمانوں کی قیادت نوابوں، زمینداروں یا وفاداران ازلی اور سرمایہ داروں سے چھین کر احرار کے ہاتھوں میں دے دی۔جنہوں نے اپنا سب کچھ آزادی کے خاطر لٹاکر ملک کو ان تن کے گوروں من کے کالوں سے چھڑایا اور اپنا نام مجاہدین آزادی میں آب زر سے نقش کروایا۔ انہیں جانباز سپاہیوں میں مولانا محمد علی جوہر کا نام بھی تابناک خورشید کی طرح درخشاں اور تابندہ ہے جن کے مضامین اور اشعار میں جو سوز و گداز، درد واثر ہے، وہ ان کی سیاسی زندگی کا مرہون منت ہے۔ مولانا محمد علی سے پہلے سیاست حقوق کی جنگ تھی جس میں خطرہ زیادہ نہ تھا۔ اب یہ قید و بند، دار و رسن، ظلم و جبر کے خلاف جہاد کی داستان بن گئی۔ مولانا محمد علی جوہر کئی دفعہ جیل گئے۔آپ نے اور آپ کے ساتھیوں نے بڑی تکلیفیں اٹھائیں۔یہ تکلیفیں حصول کرسی کے لیے نہیں تھی بلکہ وطن کی آزادی کے لیے تھی۔ آپ کو ان کی وہ شعلہ بار تقریر بھی یاد ہوں گی جو انہوں نے لندن میں کی تھی۔ جس کے ہر لفظ سے حریت اور آزادی کی دلآویز خوشبو مشام جان کو معطر کررہی ہے۔آپ نے شیر کی طرح دھاڑتے ہوئے کہاتھا:
I want to go back to my country, if i can go back with the substance of freedom in my hand. Otherwise i will not go back to a slave country. I would even prefer to die in a foreign country, so long as it is a free country.
یہ تھی مولانا محمد علی جوہر کی غیرت وحمیت اور سوز والم جس کو انہوں نے انگریزوں کے بڑے بڑے افسروں کے سامنے بلا خوف وجھجھک کے بول دیا۔ وہ اپنے وعدے کے پکے بھی تھے۔ اسی وجہ سے سن 1931 میں جب ان کا وصال ہوا تو ان کے جسد خاکی کو ہندوستان لانے کے بجائے فلسطین میں سپردِ خاک کیا گیا تھا۔ خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را! آمین!
پریم چند اور ان کے رفقاء کے بعد اعظم کریوی، علی عباس حسینی، مجیب بیدی، کرشن چندر، اختر اورینوی، اختر انصاری، احمد عباس وغیرہ نے اپنے افسانوں کے ذریعے سے آزادی کے تصور کو پھیلایا۔انہیں جانبازوں کی انتھک جدوجہد کا ثمرہ ہے یہ ہماری’آزادی‘۔ آج کل چند انگریز نواز قوم ہمیں وطن کی محبت سکھارہی ہے۔ اور المیہ تو یہ ہے کہ انگریزوں کے تلوے چاٹنے والے ہمیں وطن سے محبت کی تعلیم دے رہے ہیں۔ ہماری پیاری زبان کو مٹانے اور سرکاری اداروں سے ہٹانے کی سعی ناتمام کررہے ہیں۔ ایسا باور کیا جاتا ہے کہ ہم نے اور ہماری زبان نے آزادی کے لیے کچھ کیا ہی نہیں۔ ڈاکٹر راحت اندوری صاحب نے کیا خوب کہا تھا کہ:
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے۔
الغرض اردو زبان نے اپنے وطن کی آزادی میں ناقابلِ فراموش کردار نبھایا ہے یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے اور اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ آئیے ہم ان تمام مجاہدین آزادی کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے اس پاک دھرتی کے خاطر اپنی گردنیں کٹائیں، جان کی بازی لگادیں اور اس وطن کو غیر ملکی طاقتوں سے آزاد کرایا۔ بلا تفریق مذہب وملت اردو طبقہ دان نے بھی اپنا اپنا کردار نبھایا ہے۔ لہذا کوشش یہ کی جائیں کہ اس زبان کو باقی رکھا جائے اور حریت، قومی حمیت، قومی یکجہتی اور ہم آہنگی کا نشان قرار دیا جائیں۔ نفرت، تعصب، بربریت، فرقہ واریت کی مسموم فضا میں ہم توازن، اعتدال، محبت، مساوات، رواداری، اخوت اور بھائی چارگی کا نغمہ سنائیں۔جب یہ ہوگا تو ملک کی جمہوریت اور سالمیت محفوظ ہوگی۔خدا ہماری مدد کرے۔ رب سے دعا ہے کہ ہمارے وطن کو ہمیشہ پرامن رکھے۔ فرقہ پرستی سے محفوظ رکھے۔آمین!
[ad_2]
Source link