ہر چند فاصلے ہیں
پر دل کے رابطے ہیں
پیغام دے گئے وہ
نازک سے بلبلے ہیں
کھل کر ہمیں بتا دو
کچھ ہم سے مسئلے ہیں
حاکم کہاں گیا ہے
غربت کے سلسلے ہیں
دل کھو گیا کہاں پر
دنیا میں تبصرے ہیں
میں تو غلط نہیں ہوں
کیوں مجھ پہ دائرے ہیں
در، بام ، راہ ،گلشن
ملنے کے راستے ہیں
انساں پہ آئی آفت
یہ کیسے تجربے ہیں
دل ،جاں، جگر، نظر ، ہم
تیرے ہی واسطے ہیں
وہ دھول اٹھ رہی ہے
نزدیک قافلے ہیں
فرصت نہیں فدا کو
یادوں کے سلسلے ہیں
محمد اسلام فدا