افسوس میں گیت نہیں لکھ سکا۔ میں دیکھتا رہا ، جھرنے، پہاڑ، میدان، کھیت ، کھلیان، در، دریچے، ہرن انکھیں، مورنی کی چال ، تیتر کی بولیاں، صحرا پر نہیں لکھ سکا گیت۔
افسوس مجھے جو خوشی کے گیت لکھنے چاہیے تھے میں ان کے بھی مرثیے لکھتا رہا۔ مجھے پھول کھلتے کم نظر آئے کلیاں برباد ہوتیں محسوس ہوتی رہیں۔
افسوس مجھے خوشی کے گیتوں کے ہوتے ہوے بھی دکھ اور ہجر کے گیت ہی سننے کو ملے۔ میری عمر ہنسنے کی تھی اور میں روتا رہا۔میرے ہم عمر مجھ سے چھوٹے تھے میرے اللہ کو ہنستے چہرے بھی پسند تھے ناجانے کون مجھے سمجھا گیا کہ تیرے رب کو رونا پسند ہے اور میں روتا ہی چلا گیا۔
افسوس دنیا دو رخی تھی ہنستی ہوئی اور روتی ہوئی میری طرف جو رخ آئے وہ روتے ہوئے ہی تھے۔ میں بھی عجیب دکھی شخص تھا اسی کو رب کی رضا سمجھتا رہا۔
افسوس میں نے ساری زندگی جس ہجرت میں گزار دی وہ ایک ہی آنے جانے کا تھا راستہ ۔ جہاں سے چلا تھا وہیں لوٹ آتا تھا۔ بہت سفر کیے بلکہ ہمیشہ سفر میں ہی رہا کبھی جانے کا سفر اور کبھی آنے کاسفر۔
افسوس میں وہ تھا جو دودھ کا جلا تھا اور باقی زندگی لسی پھونک پھونک پیتا رہا۔ جو دشمن جاں تھے ان کو گلے لگاتا رہا اور جو راحت جاں تھے ان سے بچ بچ کے چلتا رہا۔
افسوس میں جوانی سے ہی مٹھاس کی زیادتی کا شکار ہوگیا۔ باقی ماندہ زندگی مٹھاس سے نفرت رہی ۔ لہجے بھی ملے تو کڑوے ملے۔ سانپ بھی ملے تو آستیں کے ۔ امرت جو ملا وہ بھی زہریلا تھا۔
افسوس میں کسی کا کیا ہوتا میں تو اپنا بھی نہ ہوسکا۔ زندگی اپنے سے ڈرتے گزار دی۔ نماز کیا پڑھی دنیا سوچتے، دیکھتے ، روتے پڑھ دی پر نماز قائم نہ ہوئی۔ افسوس ساری عمر وقت کی پابندی کی پر نماز ہمیشہ قضا ہی پڑھی ۔
افسوس مجھے افسوس کرنا بھی تو نہیں آیا ۔ مجھے بھول ہی تو جاتا ہے افسوس کس چیز کا کرنا ہے ۔ جب جہاں گیا پوچھ ہی تو لیا کہ افسوس کس بات کا ہے۔
افسوس ہر طرف طرز ہا طرز کے کھانے تھے مجھے جو کھانے کو ملے تھے وہ دھوکے ہی تھے۔ عمر گزر گئی دھوکے کھاتے پر من نہیں بھرا۔ میں ابھی کچھ دیر ادھر ہی ہوں لے آئیں اگر آپ بھی سنبھالے ہوئے ہیں کوئی دھوکہ۔
زندگی جہد مسلسل اور صلہ کچھ بھی نہیں
جی رہا ہوں جیسے جینے کا مزا کچھ بھی نہیں
اور ہوں گے جن کو ملتا ہے وفاؤں کا صلہ
یاں تو سب کچھ کھو دیا لیکن ملا کچھ بھی نہیں
سہہ رہا ہوں کب سے ناکردہ گناہوں کا عذاب
اے خدا کیسے کہوں میری خطا کچھ بھی نہیں
گردش حالات سے بس پھڑپھڑا اٹھے ہیں لب
آپ یہ سچ جانئے کہ مدعا کچھ بھی نہیں
میں نے اے شہزادؔ دنیا بھر کو سب کچھ ہی دیا
پر یہ دنیا کیسی ہے اس نے دیا کچھ بھی نہیں