[ad_1]
بلاشبہ دنیا میں 195 سے زائد ممالک ہیں اور ہر ملک کے پاس بے شمار ایٹمی قوتیں اور لاتعداد ہتھیار سے لیس فوجی ہوتے ہیں جو کہ دشمن سے مقابلہ آرائی کے وقت ان کے تحفظ و بقا کے ضامن ہوتے ہیں ، اس کے علاوہ چند ممالک آپس میں دوستی اور معاہدہ کر لیتے ہیں جو میدان جنگ میں ایک دوسرے کی پشت پناہی کرکے دشمن کے مضبوط سے مضبوط قلعے کو بھی زمین بوس کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ، یہ اتحاد کبھی دو مختلف براعظموں کے دو مختلف ملکوں میں ہوتا ہے تو کبھی پاس پڑوس کے ممالک میں، اور بلاشبہ پڑوسی ممالک کا اتحاد مختلف براعظموں کے اتحاد پر فوقیت رکھتا ہے ، کیونکہ اعلان جنگ کے بعد اگر آپ کو اپنے اتحادی ملک سے مدد طلب کرنا ہے اور آپ کا اتحادی ملک دوسرے براعظم پر واقع ہے تو یقیناً اسے آپ تک پہنچنے میں ، آپ تک اپنی مسلح افواج کو بھیجنے میں، ہتھیار سپلائی کرنے میں بہت زیادہ وقت درکار ہوگا بمقابل پڑوسی ملک کے،
تو پتہ چلا کہ ہر ملک کے لیے اپنے پڑوسی ممالک سے اتحاد کرنا اور اسے برقرار رکھنا نہایت ہی اہم اور ضروری ہے۔
اس ضمن میں اگر ہم ملک ہندوستان کی بات کریں تو جغرافیائی زاویہ نظر سے اس ملک کے اردگرد پانچ ممالک آتے ہیں، جس میں چین، نیپال اور بھوٹان شمال کی جانب، بنگلہ دیش مشرق اور پاکستان مغرب کی سمت واقع ہے اور رہا جنوب کا علاقہ تو اس طرف عرب مہاساگر اور چند گھاٹیاں ہیں۔
ان پڑوسی ممالک سے اگر ہم بھارت کے اتحاد کی بات کریں تو مغرب کی جانب وقوع پذیر ملک پاکستان سے بھارت کا تعلق کیسا ہے یہ تو کسی پر بھی مخفی نہیں ، واضح رہے کہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد ہی سے ان دونوں ملکوں میں سرحدوں پر خوں ریزی، قتل و غارت گری اور جنگ وجدال کے ہزاروں واقعات بلا شبہہ باہم عدم اتفاقی اور دشمنی کی مبینہ دلیل ہیں اور سوء اتفاق کہ ان دونوں ملکوں میں باہم اتفاق و اتحاد کا تصور لا یعنی ہے۔
چین جوکہ بھارت کا ایک پڑوسی ملک ہے، 1962ء میں اس ملک سے کچھ واقعات کی بنا پر جنگ کی صورت پیدا ہو گئی تھی اور افسوس کہ اس جنگ میں وطن عزیز ہندوستان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، پھر کئی دہائیوں تک دونوں پڑوسی ملکوں میں باہم گرما گرمی چلی لیکن جب راجیو گاندھی اقتدار کے منصب پر فائز ہوئے تو آپ نے چین کا دورہ کیا اور اس دورے نے دونوں ملکوں کے باہمی ربط و ضبط کو از سر نو بحال کر دیا اور اب تک دونوں ملکوں کا یہ تعلق اسی طریقے سے چل رہا تھا، لیکن حالیہ دنوں میں اس اتحاد کو جانے کس کی نظر لگ گئی، اچانک یہ دونوں ملک جو کچھ وقت پہلے تک اتحاد کی مثال ہوا کرتے تھے، آج ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نظر آ رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق چینی فوجی گلوان گھاٹی نامی جگہ پر بھارتی سرحد میں گھس آئے، ادھر سے انھیں روکنے کی پوری کوشش کی گئی جس کے نتیجے میں اب تک کئی جھڑپیں ہو چکی ہیں اور صد افسوس کہ اس مد بھیڑ میں بھارت کے بیس سے زائد جوان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔
نیپال ایک چھوٹا اور غریب ملک ہے، اس ملک سے بھارت کو کافی انسیت ہے، ابتدا ہی سے ان دونوں ممالک کے رشتے بڑے ہی مضبوط رہے ہیں , دانشوران اس رشتے کو روٹی اور بیٹی کا نام دیتے ہیں یعنی ہزاروں لاکھوں نیپالی عوام ہندوستان میں کام کرکے اپنی اور اپنے اہل و عیال کی گزر بسر کا انتظام کرتے ہیں تو وہیں ہندوستان کے لوگ بھی نیپال میں اپنی بیٹیوں کو بیاہنے سے ذرہ برابر نہیں ہچکچاتے، کئی دہائیوں سے یہ رشتہ یونہی برقرار تھا بلکہ روز افزوں تھا لیکن حالیہ خبر کے مطابق نیپال حکومت کی جانب سے ملک نیپال کا ایک نیا نقشہ منظر عام پر لایا گیا جس میں بھارت کے صوبہ اتراکھنڈ کے لمپیادھورا،کالاپانی اور لیپولیک سمیت تین مقامات کو نیپال کا حصہ دکھایا گیا پھر 19 مئی 2020 کو آنا فاناً اس جدید نقشہ کو نیپالی ایوان بالا سے منظوری بھی مل گئی، دوسری جانب ہندوستان میں اس خبر سے ہڑکمپ مچا ہوا ہے، وزیر اعظم نریندر مودی نے نیپال کی اس حرکت پر کافی غم و غصے کا اظہار بھی کیا ، نیپال کے وزیراعظم کے پی شرما اولی نے اس پورے معاملے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے کہا کہ بھارت کی ناراضگی کی ہمیں کوئی پروا نہیں ۔
ابھی اس معاملے کو زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ نیپال کی ایک اور دریدہ دہنی ابھر کر سامنے آئی جس میں نیپالی پولیس کی جانب سے صوبہ بہار کے سیتا مڑھی ضلع میں کھیتوں میں کام کر رہے بہار کے مزدوروں پر اندھا دھند فائرنگ کی گئی ، اس فائرنگ میں ایک کسان کی موت اور تین لوگ زخمی ہو گئے ،بھارتی میڈیا کے مطابق نیپال یہ سب چین کے اشاروں پر کر رہا ہے لیکن بہرحال ان واردات کے ذریعے بھارت کے چھوٹے بھائی کہے جانے والے نیپال سے بھی اتحاد خطرے میں پڑ گیا۔
اب رہ گیا بھوٹان تو واضح رہے کہ بھوٹان بھی دنیا کے غریب ترین ممالک میں شمار کیا جاتا ہے اس ملک کے ساتھ بھی بھارت کے تعلقات نیپال ہی جیسے تھے، لیکن معتبر ذرائع ابلاغ کے مطابق بھوٹان سے نکلی ندی سے آسام کے چالیس گاؤں اپنی کھیتیاں سیراب کرتے تھے لیکن بھوٹان نے اس پانی کو بند کرکے بھارت کے ساتھ باہم دوستی کا خاتمہ کر دیا ۔
مذکورہ بالا توضیحات کے مطابق یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ ہندوستان کے پانچ پڑوسی ممالک میں سے چار اس وقت ہمارے جانی دشمن بن چکے ہیں، اس خبر سے پورے ملک میں سنسنی پھیلی ہوئی ہے تو وہیں دوسری جانب بھارت کے اب تک خارجی ممالک کا سب سے زیادہ دورہ کرنے والے وزیراعظم کے کاموں پر سوالیہ نشان کھڑا ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے ، ایک رپورٹ کے مطابق موجودہ وزیراعظم اب تک اپنے خارجی دورے پر 52 ، 446 کروڑ روپیہ صرف کر چکے ہیں، لیکن اس کا کوئی فائدہ نظر آیا؟ آج ہمارے پڑوسی ممالک ہمیں آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ آئے دن سرحدوں سے موصول ہو رہی ہمارے جوانوں کی موت کی خبروں سے ہمارے کلیجے پھٹے جا رہے ہیں ، لیکن حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے لینے کی بجاے چوڈیاں پہنے خاموش بیٹھی ہے، مجھے یاد ہے 2014 ء میں وزیراعظم نے اقتدار سنبھالتے ہی کہا تھا کہ ہم اپنے ملک کو کبھی جھکنے نہیں دینگے لیکن افسوس کہ چینی افواج آج ہفتوں سے ہماری سرحد میں گھس پیٹھ کرکے ڈیرا ڈالے ہوئے ہیں، آپ کا 56 انچ کا وہ سینہ کہاں ہے؟
ہمارا وطن عزیز دن بدن کمزور ہوتا جا رہا ہے،
نیپال نے ہماری زمین کو اپنی زمین قرار دے کر اپنے ایوان بالا سے منظوری بھی حاصل کر لی لیکن آپ اب تک خاموش کیوں ہیں ؟
سیتامڑھی سرحد پر ایک بھارتی کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، لیکن آپ اور آپ کی حکومت کوئی فوری کاروائی کیوں نہیں کر رہی؟ ایک شہری ہونے کے ناطے ہر ہندوستانی آپ سے سوال کررہا ہے کہ 14 فروری 2019ء کو پلوامہ حملہ کے نتیجے میں آپ نے پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کا اعلان کیا جبکہ اس معاملے میں پاکستان ملوث ہے یا نہیں، یقینی نہیں تھا تو آج آپ چین اور نیپال پر سرجیکل اسٹرائیک کا اعلان کیوں نہیں کرتے؟
جو جذبہ اور جوش و خروش آپ نے تین طلاق کے خلاف بل پاس کرنے اور CAA, NRC, اور NPR جیسے لا یعنی بلوں کو پاس کرنے میں دکھایا کاش وہی جذبہ اگر آپ ملک کی حفاظت میں دکھاتے تو شاید ہمارے 20 جوانوں کی زندگیاں یوں ہی ضائع نہ جاتیں،اور آج وطن عزیز ہندوستان کو اتنے نازک ترین حالات سے دوچار ہونا نہ پڑتا۔
محمد احمد حسن امجدی
متعلم جامعة البركات علی گڑھ۔
مسکن لکھن پوروا، رودھولی بازار ضلع بستی یوپی الہند
[ad_2]
Source link