[ad_1]
کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے آج دنیا کے بیشتر ممالک لاک ڈاؤن کی زحمت برداشت کر رہے ہیں ، جس سے بیشتر ملکوں کی معیشت اور جے ڈی پی بری طرح متاثر ہے ، ہندوستان میں ۸۰ فی صد سے زائد گھروں میں کھانے پینے کے لالے پڑے ہیں ، ملک کے گوشے گوشے سے فرط بھوک سے روتے بلکتے بچوں کی چیخیں پتھر دل شخص کو بھی موم کر کے آنسو بہانے پر مجبور کر دے رہی ہیں، اب تو حالات اس قدر ابتر ہو چکے ہیں، سمجھ میں نہیں آتا کہ کورونا وائرس کا شکوہ کیا جائے یا لاک ڈاؤن سے ہزاروں کلومیٹر پیدل سفر کرکے اپنے گھر پہنچنے والے مفلوج الحال اور پریشان مزدوروں پر سوگ منایا جائے۔
جب بھی ہندوستان کے ان نازک ترین حالات کے بارے میں سوچتا ہوں تو حاشیہ ذہن پر ایک خیال ابھرکر آتا ہے ، ایک فکر ذہن کے دریچے پر دستک دیتی ہوئی نظر آتی ہے۔
کہ جب چار مہینوں سے ہم پر مسلط لاک ڈاؤن کی سختیاں اتنی المناک اور کرب و اضطراب سے پر ہیں تو ان کشمیریوں کا کیا حال ہوگا؟
جو بےچارے آج گیارہ مہینوں سے اپنے ہی گھروں میں قید وبند کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، اس چار مہینے کی تالا بندی نے جب ہمارے گھروں کے چولہوں کو خشک کر دیا ہے تو کشمیریوں کے گھروں میں کس قدر قحط کا عالم ہوگا۔
تقریب فہم کے لیے معمولی سا پس منظر اور اصل گفتگو ۔
بابا بھیم راو امبیڈکر کے بنائے گئے قانون کے مطابق کشمیر چند خصوصیات کی بنا پر ہندوستان کے دیگر صوبہ جات سے امتیازانہ شان کا حامل تھا، اس کا ایک الگ مقام تھا ، کسی دوسرے صوبے کے رہنے والے یا دوسرے ملک کے باشندے کو وہاں زمین خرید کر رہنے کا حق نہیں تھا وغیرہ وغیرہ۔
بھارت کی بر سراقتدار پارٹی بی جے پی جسے مسلم مخالف پارٹی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ، اس پارٹی نے 2014ء سے اقتدار سنبھالتے ہی اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا ، مسلمانوں کے متعلق اس پارٹی کے دل میں کتنی نفرت اور آگ بھڑک رہی ہے یہ طلاق ثلاثہ، سی اے اے اور این آر سی جیسے بلوں کے پاس کرنے سے لگایا جا سکتا ہے، تاہم اس پارٹی کے لائق ملامت کاموں میں سے دھارا 370 کو ختم کرنا ہے جو کہ کشمیریوں کو پوری حریت اور نمایاں مقام فراہم کرتا تھا، اس کو ختم کرنا ہے۔
واضح رہے کہ پانچ اگست 2019ء کو پارلیمنٹ سے دھارا 370 کو کالعدم قرار دے دیا گیا ،حکومت کا یہ ناپاک قدم کسی بھی کشمیری کے لیے ناقابل برداشت تھا ، قبل اس کے کہ کوئی کشمیری اس بل کے خلاف آواز اٹھائے پورے کشمیر کو لاک کردیا گیا، لاکھوں فوجی تعینات کر دیے گئے،جن کے ذریعے گھروں میں تشدد کیا گیا، عورتوں کے عزت و ناموس سے کھیلا گیا، اس سے کشمیریوں کی زندگی ایک کھلی کتاب بن کر رہ گئی, معیشت نچلے درجے میں آگئی, حتى کہ ان پر گھروں سے نکلنے پر پابندیاں عائد کر دی گئیں، فوجی اہلکاروں کی جانب سے ان پر بے انتہا مظالم ڈھائے گئے ، زد و کوب کی ساری حدیں پار کردی گئیں اور حکومت کی جانب سے یہ ظلم واستبداد ہنوز جاری ہے۔
ملک کے بعض انصاف پسندوں نے جب اس بل کی مخالفت کر حکومت سے جواب طلب کیا تو حکومت نے صراحتاً اس بات کا اعلان کیا کہ اس دھارا کو ہٹانے سے ہمارا مقصد کشمیر کی اقتصادی اور معاشی ترقی ہے، اس دھارا کی وجہ سے کشمیر میں باہری کمپنیاں آنے سے قاصر ہیں، اس دھارا کو ختم کرکے ہم کشمیر میں باہری کمپنیاں لائینگے اور اس کے ذریعے وہاں کے ہر ایک فرد کو کام مل سکے گا، معیشت میں ترقی ہوگی،اکنامی مزید اوپر جاۓ گی، اس بل کے پاس ہونے کے بعد کشمیری زمین پر ایک نیا کشمیر بن کر ابھرے گا، کشمیر کے طلبہ پوری دنیا میں اپنی علمی صلاحیت کو اجاگر کر سکیں گے۔
یہ کہہ کر حکومت نے مخالفین کی زبان پر تالے لگا دیے، لیکن کاش حکومت کے یہ ایجنڈے حقیقت کے ترازو پر کھرے اترتے، کاش بی جے پی حکومت اس بار اپنے قول میں سچی ہوتی۔
لیکن ایسا کیوں کر ہو ،دھارا 370 کو ہٹانے کے پس پردہ حکومت کا مقصد تو محض مسلمانوں کو پریشان کرنا تھا ، حکومت کی منشا تو صرف کشمیریوں کی مسکراتی زندگی میں آگ لگانا تھی۔
کہاں گئے حکومت کے اقتصادی سرگرمیوں کو بڑھانے کے وہ وعدے؟ کہاں گئے کشمیر کو اوج ثریا پر لے جانے والے وہ جملے؟ کہاں گئے کشمیری طلبہ کو تعلیمی میدان میں ترقی دینے والے وہ خواب؟
افسوس صد افسوس!
جو کشمیر میں مزید معاشی وسائل فراہم کرنے کی باتیں کرتے تھے، انہیں لوگوں نے آج گیارہ مہینوں سے کشمیر کو مالٹا کا صحرا بنا رکھا ہے، لاک ڈاؤن کی وجہ سے جدید ٹیکنالوجی اور ہائی اسپیڈ نیٹورکنگ سسٹم کی بدولت پورے ملک میں گھر بیٹھے آن لائن تعلیم جاری ہے لیکن ایسے میں بیچارے کشمیری طلبہ کا کیا حال ہے؟کیا کبھی کسی نے سوچا؟ ایک رپورٹ کے مطابق جہاں گیارہ مہینوں سے ٹو جی نیٹ ورک کے علاوہ پورا سسٹم لاک ہے، وہاں کے طلباء کس طرح اپنی علمی پیاس بجھائیں گے، اس بارے میں حکومت کو کوئی فکر نہیں اور نہ ہی حکومت کے پاس کشمیریوں کے حالات بحال کرنے کا کوئی منصوبہ ہے، حکومت ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی ہے جب کہ کشمیری اپنی بقا کے تحفظ کی جنگ لڑ رہے ہیں، شاید اس حکومت کو نہیں معلوم کہ ہر ظلم کی انتہا ہوتی ہے۔ اور یہ ظلم بھی اپنی انتہا کو پہنچے گا، اور ظالم کیفرکردار تک پہنچے گا،
اللہ کشمیریوں کی حفاظت فرماۓ اور امت مسلمہ کو کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی شدید زحمت سے نجات عطا فرماۓ ۔
آمین ثم آمین۔
محمد احمد حسن امجدی
لکھن پورواں، رودھولی بازار ضلع بستی
8840061391
[ad_2]
Source link