[ad_1]
کروڑی مل کالج سال اول کے طالب علم سمیہ رنجن کوشلیہ نے بتایا کہ اُردو زبان ادب کی زبان ہے، جب ہم دوسری زبان میں بات چیت کرتے ہیں تو اتنی توجہ نہیں مل پاتی جتنی اُردو زبان میں ملتی ہے۔
نئی دہلی: ابھی چند روز قبل 9 نومبر کو عالمی یوم اُردو کی مناسبت سے ملک بھر میں جگہ جگہ اُردو کی محفلیں سجائیں گئیں جس میں کچھ لوگوں نے اُردو زبان کی زبوں حالی پر تقریریں کی تو کچھ نے اُردو زبان کو روزگار سے جوڑنے کی بات کی اور کچھ نے اُردو کی موجودہ صورت حال پر روشنی ڈالی۔ اس بات کو سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ اُردو ایک ایسی زبان ہے جس نے ہر دور میں اپنی اہمیت و افادیت کا لوہا منوایا ہے۔ ہندوستان کی آزادی کا معاملہ ہو یا پھر پارلیمنٹ میں لیڈران کی تقریروں کا، سبھی اپنی باتوں میں زور پیدا کرنے کیلئے اُردو زبان کے اشعار کا استعمال کرتے ہیں۔ آج کے موجودہ وقت میں جہاں ایک جانب اُردو زبان کو مختلف چیلجز کا سامنا ہے وہیں دوسری طرف ایسی بھی خبریں سامنے آ جاتی ہیں جس سے اس بات کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ اُردو کبھی نہ مٹنے والی زبان ہے۔
بعض لوگ اُردو زبان کی بقا و ترویج کے حوالے سے سیمینار منعقد کرتے ہیں، اپنی اپنی بات رکھتے ہیں اور اُردو کے بگڑتے حالات پر اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے ہیں، لیکن وہ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہیں نظر نہیں آتے کہ اُردو زبان اور اس کی ترقی کا انحصار اسکول اور کالج پر ہے، وہ اس لئے کہ یہیں سے نئی نسل اُردو پڑھنا، لکھنا اور بولنا سیکھتی ہے۔ تاہم اُردو کے قارئین بھی یہیں سے پیدا ہوتے ہیں۔ اس کی تازہ مثال دہلی یونیورسٹی کا کروڑی مل کالج کا شعبہ اُردو ہے جس کے پروفیسر بالخصوص ڈاکٹر ندیم احمد ان طلبا و طالبات کو اُردو زبان پڑھنا، لکھنا، اور بولنا سکھا رہے ہیں جن کی زبان اُردو نہیں ہے۔
نمائندہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ندیم احمد نے بتایا کہ نیشنل ایجوکیشن پالیسی 2020 کے مطابق بی اے آنرس کے طالب علم اپنی پسند کے مطابق ہندوستانی زبان کا انتخاب کر سکتا ہے۔ اسی کے تحت اُردو زبان سیکھنے کیلئے ہمارے پاس اڈیشہ سے تعلق رکھنے والا ایک طالب علم جو ہمارے کالج میں بی اے آنر س سال اول میں زیر تعلیم ہے، اس میں اُردو زبان سیکھنے کا بھرپور جذبہ موجود ہے۔
ڈاکٹر ندیم احمد نے بتایا کہ سمیہ رنجن کوشلیہ نامی طالب علم جس کو میں اُردو زبان شروع سے سکھا رہا ہوں، اس درمیان سمیہ رنجن نے تقریباً 45 دنوں میں اُردو زبان سیکھنے میں جو سرعت دکھائی ہے اس سے ہمیں دلی خوشی ملی ہے۔ ہم رنجن کو جو بھی سبق دیتے ہیں اس کو وہ یاد کرتا ہے اور ہمیں دکھاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے بڑی کامیابی کیا ہوگی کہ ہم ایسے بچوں کو اُردو زبان سکھا رہے ہیں اور بچے بھی سیکھنے کے خواہش مند ہیں جن کی زبان اُردو نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ اڈیشہ سے تعلق رکھنے والا یہ طالب علم جلد ہی اُردو زبان میں اپنے خیالات و احساسات لکھنا سیکھ جائے گا۔
ڈاکٹر ندیم احمد نے اُردو زبان کے تعلق سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اُردو ایک ایسی زبان ہے جس کو سیکھنے کے بعد لوگ کسی بھی زبان کا تلفظ اچھی طرح ادا کر سکتے ہیں۔ اسی لئے ہمارے پاس ایسے ایسے تعلیم یافتہ لوگ بھی آتے ہیں جو اپنی اپنی زبان میں ماہر ہوتے ہیں لیکن اُردو زبان اس لئے سیکھتے ہیں تاکہ ان کو بات چیت کرنے کا بہترین طریقہ آ جائے۔ انہوں نے کہا کہ اُردو ہماری مادری زبان ہے جس کو فروغ دینے کیلئے ہم اپنی کوشش جاری رکھیں گے۔
سال اول کے طالب علم سمیہ رنجن سے جب نمائندہ نے سوال کیا کہ آپ کو اُردو میں کیا چیز سب سے زیادہ پسند آئی؟ تو جواب میں سمیہ رنجن نے کہا کہ سوشل میڈیا پر میں پہلے شاعری کی ویڈیوز دیکھتا تھا۔ اس میں آواز کے ذریعہ تو بات سمجھ میں آ جایا کرتی تھی لیکن اس کا مفہوم سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ اس لئے جب میں نے کروڑی مل کالج میں داخلہ لیا، تو اسی دن فیصلہ کیا کہ اُردو زبان کو مکمل طور پر ضرور سیکھنا ہے۔ سمیہ رنجن نے کہا کہ اُردو زبان ’ادب کی زبان‘ ہے۔ جب ہم دوسری زبان میں بات چیت کرتے ہیں تو اتنی توجہ نہیں مل پاتی جتنی اُردو زبان میں ملتی ہے، اور اسی چیز نے مجھے اُردو زبان کا عاشق بنا دیا۔
رنجن نے بتایا کہ ابھی فی الحال وہ اُردو میں اپنا نام اور اٹک اٹک کر اُردو پڑھ اور لکھ لیتے ہیں، اور بولنے کی بھی مشق کر رہے ہیں۔ اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے رنجن نے بتایا کہ ان کی 12ویں تک کی تعلیم اڑیہ زبان میں ہی ہوئی ہے اور وہ اب انگریزی، ہندی اور خاص طور پر اُردو زبان پر دسترس حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس میں ان کے استاد ڈاکٹر ندیم احمد بھرپور ساتھ دے رہے ہیں۔ وہ پوری لگن کے ساتھ پڑھا رہے ہیں اور اردو زبان کی باریکیوں سے واقف کرا رہے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
[ad_2]
Source link