
سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ ٹرمپ کے ٹیرف اصل میں چین کو مضبوط کر رہے ہیں۔ چین نے اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے اور وہ آزاد تجارت کی حمایت میں سامنے آیا ہے۔ امریکی عدم استحکام کے برعکس، وہ خود کو ایک قابلِ اعتماد متبادل کے طور پر پیش کر رہا ہے۔
امریکہ کے روایتی اتحادی بھی چین کی جانب متوجہ ہو رہے ہیں، جو خطے میں اقتصادی شراکت داری کے معاہدے کر رہا ہے اور عالمی سطح پر اپنے تعلقات کو مضبوط بنا رہا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ تحفظ پسندی سے کبھی خوشحالی نہیں آئی۔ 1930 کا بدنام زمانہ ’سموٹ ہالی ٹیرف ایکٹ‘ بھی عالمی کساد بازاری کو بڑھاوا دینے والا ثابت ہوا۔ اس وقت بھی کوئی فاتح نہیں نکلا تھا، سبھی ہارے تھے۔ امریکہ کی حالیہ ترقی، جدت، کھلی منڈیوں اور عالمی تجارتی شراکت داریوں پر مبنی تھی۔ ٹرمپ کی پالیسیوں نے ان بنیادوں کو کمزور کیا ہے۔
یہ یکطرفہ اقدامات ان تمام سفارتی کوششوں کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں جو برسوں سے غیر منصفانہ تجارتی رویوں کو ختم کرنے کے لیے کی جا رہی تھیں۔ یہ تحفظ پسندانہ جوا امریکہ کو تنہائی کی طرف دھکیلتا ہے، چین کو فائدہ پہنچاتا ہے اور امریکہ کی عالمی ساکھ کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اگر یہ پالیسیاں واپس نہ لی گئیں تو امریکہ کا عالمی اثر و رسوخ کم ہوتا چلا جائے گا، جبکہ چین کا اثر بڑھتا چلا جائے گا۔ دنیا دم سادھے یہ منظر دیکھ رہی ہے، کیونکہ یہ صرف اقتصادی نہیں بلکہ عالمی طاقت کے توازن کا بھی اہم موڑ ہے۔
(مضمون نگار اشوک سوین سویڈن کی اپسالا یونیورسٹی میں امن و تنازع کے مطالعے کے پروفیسر ہیں)