[ad_1]
سپریم کورٹ کے تیرہ رکنی فل کورٹ نے جمعہ کے روز آٹھ پانچ کا اکثریتی فیصلے کے تحت پی ٹی آئی کو پارلیمانی پارٹی اور قومی اور صوبائی اسمبلی کی مخصوص نشتوں کا حقدار قرار دے دیا ہے۔ فل کورٹ کے اس فیصلے پر مختلف قسم کی آراء دی جارہی ہیں، پی ٹی آئی فیصلے کو انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق قرار دے رہی ہے جب کہ حکومت اور اس کے اتحاد اس فیصلے پر تحفظات کا اظہار کررہے ہیں۔
بہرحال ہر فیصلے کے بعد ایسی ہی صورتحال بنتی ہے ۔ میڈیا کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ نے فیصلہ سنانا شروع کیا۔ آغاز پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا، آٹھ ججز کا اکثریتی فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ کا ہے، اس لیے وہ فیصلہ سنائیں گے۔ اس کے بعد جسٹس منصور علی شاہ نے اکثریتی مختصر فیصلہ سنایا ۔جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس منیب اختر،جسٹس محمد علی مظہر،جسٹس عائشہ ملک،جسٹس اطہر من اللہ،جسٹس حسن اظہر رضوی،جسٹس شاہد وحید اور جسٹس عرفان سعادت خان کے اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ انتخابی نشان ختم ہونے سے کسی سیاسی پارٹی کو انتخابی عمل سے محروم نہیں کیا جاسکتا،تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت ہے اور پی ٹی آئی خواتین اور اقلیتی نشستوں کی حقدار ہے،اکثریتی فیصلے میں 13 مئی کا الیکشن کمیشن کا نوٹیفکیشن غیر آئینی قرار دیا گیا۔
اکثریتی فیصلے میں الیکشن کمیشن کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی فہرست کو آرڈر آف دی کورٹ کا حصہ بناتے ہوئے کہا گیا، الیکشن کمیشن کی جمع کرائی گئی فہرست کے مطابق 80 میں سے 39 کو پی ٹی آئی کے امیدوار ظاہر کیا گیا ہے،الیکشن کمیشن نے اپنی فہرست میں 41 امیدوار وں کو آزاد ظاہر کیا ہے ،آزاد امیدوار 15 دنوں میں سیاسی جماعت سے وابستگی ظاہر کریں، پارٹی وابستگی ظاہر کرنے پر الیکشن کمیشن 7 دنوں میں سیاسی جماعت کو نوٹس جاری کرے،سیاسی جماعت الیکشن کمیشن کے نوٹس پر 15 دنوں میں امیدوار کی پارٹی سے وابستگی کی تصدیق کرے۔
آزاد امیدواروں کی پارٹی وابستگی کا تصدیقی عمل مکمل ہونے پر الیکشن کمیشن 7 روز میں فہرست جاری کرے،الیکشن کمیشن آزاد امیدواروں کی پارٹی سے وابستگی کے تمام مراحل مکمل ہونے پر عملد آمد رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرے،تحریک انصاف 15دنوں میں مخصوص نشستوں کی فہرستیں جمع کرائے،الیکشن کمیشن مخصوص نشستیں تحریک انصاف کو دے کر نوٹیفکیشن جاری کرے،سپریم کورٹ کے فیصلے کا اطلاق متناسب نمائندگی کے اصول کے تناظر میں تین صوبائی اسمبلیوں پربھی ہوگا، الیکشن کمیشن یا تحریک انصاف کو کوئی وضاحت درکار ہو تو ہ درخواست دے سکتے ہیں،درخواست آنے کی صورت میں اکثریتی ججز چیمبر میں مناسب ہدایات جاری کریں گے۔
آٹھ ججز کے اس اکثریتی فیصلے کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس جمال خان مندوخیل،جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ قانون کو نظر انداز کرکے کسی سیاسی جماعت کی سہولت کاری کرنا سپریم کورٹ کا کام نہیںہے،سپریم کورٹ کے لیے یہ یقینی بنانا لازم ہے کہ وہ آئین میں اضافہ کرے نہ آئین کے آسانی سے سمجھ میں آنے والے الفاظ کو مصنوعی الفاظ میں تبدیل کرے۔ پی ٹی آئی کے وہ امیدوار جنھوں نے کاغذات نامزدگی میں پارٹی وابستگی برقرار رکھی۔ اُن کی بنیاد پر متناسب نمائندگی کے تحت مخصوص نشستیں دی جائیں، اختلافی نوٹ میں پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے اپیلیں ناقابل سماعت قرار دیدیں۔
وفاقی وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ یہ عدالت کا حکم ہے لیکن تکلیف دہ ہے۔ یہ نشستیں سنی اتحاد کونسل کو جانی چاہیے تھیں۔ ہمیں سکھایا گیا ہے عدالت کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کریں۔ تفصیلی فیصلہ آنے تک اپنی رائے کا حق محفوظ رکھوں گا۔ آئین و قانون کے مطابق رائے اور تنقید ہمارا حق ہے، وہ کرتے رہیں گے۔ وزیر اعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین کو دوبارہ لکھنے کی کوشش کے مترادف ہے ۔ سنی اتحاد کونسل نے جو درخواست کی وہ تسلیم نہیں کی گئی۔ ایک نیا فیصلہ تحریک انصاف کے حق میں آگیا ہے جو انھوں نے آج تک کلیم ہی نہیں کیا۔ فیصلے کے خلاف نظر ثانی اپیل تو بنتی ہے۔ مشیر وزیر اعظم کا کہنا تھا ہمیں عدالت عظمی کا بے پناہ احترام ہے۔ تفصیلی فیصلہ آنے پر قانونی ماہرین سے مشاورت کے بعد نظرثانی کا فیصلہ کیا جائے گا۔
پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے سراہا ہے۔ ۔سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین حامد رضا نے میڈیا سے گفتگو میں کہا آج عمران خان کی جیت ہوئی ہے۔ الیکشن کمیشن نے مینڈیٹ چرانے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہو سکا، سپریم کورٹ نے حق دار کو حق ادا کر کے ادارے کا وقار بحال کر دیا،فیصلہ تاریخ میں یاد رکھا جائے گا،چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ فوری مستعفی ہوجائیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا سپریم کورٹ نے آئین میں من مانی ترامیم کاراستہ روک دیا،فیصلے سے سپریم کورٹ پر عوام کا اعتماد بحال ہوگا اور جمہوریت مضبوط ہوگی۔
امیدواروں کی مصدقہ فہرست پیر یا منگل کو جمع کرادیں گے ۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا چیف الیکشن کمشنر نے ذاتی انا کے باعث بلے کا نشان لیا،ان کے تمام اقدامات بدنیتی پر مبنی تھے، جو ارکان آئین کی غلط تشریح کررہے تھے ہیں ،ان پر آرٹیکل 6لگنا چاہیے۔آج حق اور سچ کی فتح ہوئی ۔ راستے کھلتے جارہے ہیں، اگلے وزیراعظم عمران خان ہوں گے۔ میڈیا کی اطلاع کے مطابق فل کورٹ کے اکثریتی فیصلے کے بعد لاہور میںپی ٹی آئی کے کارکنوں نے جشن منایااور مٹھائی تقسیم کی ۔پشاور پریس کلب کے سامنے کارکنان جمع ہوئے،عمران خان کے حق میں نعرے لگائے اور شکرانے کے نوافل ادا کیے۔ پشاور ہائی کورٹ بار روم میں پی ٹی آئی کے حامی وکلا جمع ہوئے۔ انھوں نے فیصلے کو آئین و قانون کی فتح قرار دیا۔
مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے فل بینچ کے فیصلے کے بعد ملک کے سیاست میں اتار چڑھاؤ دیکھنے میں آرہا ہے۔ تحریک انصاف قومی اسمبلی میں پارلیمانی پارٹی بن جائے گی ، آزاد ارکان کی پی ٹی آئی میں شمولیت خواتین اوراقلیتوں کی مخصوص نشستیں ملنے کے بعد پی ٹی آئی کے قومی اسمبلی میں ارکان کی تعداد116تک پہنچ جائے گی، یوں وہ قومی اسمبلی میں سنگل لارجسٹ پارٹی بن سکتی ہے۔
حکمران اتحاد کی عددی اکثریت کو فرق نہیں پڑے گا۔ اعداد و شمار کے مطابق قومی اسمبلی میں سنی اتحاد کونسل کے ارکان کی تعداد 84 ، پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ 8 آزاد ارکان بھی قومی اسمبلی میں موجود ہیں جس سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ارکان کی مجموعی تعداد 92 ہے۔سپریم کورٹ فیصلے کی روشنی میں خواتین کی 20 جب کہ 4 اقلیتی نشستیں پی ٹی آئی کو ملیں گی جس سے پی ٹی آئی ارکان کی تعدادقومی اسمبلی میں 116 تک پہنچنے کا امکان ہے،(ن) لیگ مجموعی طور پر 108 نشستوں کے ساتھ دوسری جب کہ پیپلزپارٹی 68 نشستوں کی ساتھ تیسری بڑی جماعت ہو گی، ایم کیو ایم 21،جے یو آئی (ف)،8،(ق) لیگ 5، استحکام پارٹی4 جب کہ مسلم لیگ (ضیاء)،بلوچستان نیشنل پارٹی ، نیشنل پارٹی ، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور ایم ڈبلیو ایم کے ایک ایک رکن قومی اسمبلی میں موجود ہیں ،سپریم کورٹ کا مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کا براہ راست اثر وفاق کے ساتھ صوبے پر بھی پڑے گا ۔پی ٹی آئی کو پنجاب اسمبلی میں خواتین کی 24 جب کہ 3 غیر مسلم کی نشستیں ملیں گی، سندھ اسمبلی میں 2 خواتین اور ایک غیر مسلم جب کہ کے پی اسمبلی کی 21 خواتین اور 4 اقلیتی نشستیں ملیں گی۔ حکومتی اتحاد ی جماعتوں کے ارکان کی مجموعی تعداد 208 جب کہ اپوزیشن میں موجود جماعتوں کے ارکان کی تعداد 128 ہوجائے گی ۔
فل کورٹ کے فیصلے کے بعد سب اپنی اپنی سوچ اور پوزیشن کے حساب سے رائے دے رہے ہیں۔ تفصیلی فیصلہ ابھی سامنے نہیں آیا، اصولی طور پر تو فیصلے کی تمام جزئیات کو دیکھ اور پرکھ کر ہی کوئی رائے دینی چاہیے۔ آنے والے دنوں میں کیا ہوتا ہے، اس کا فیصلہ اس وقت ہی ہو گا۔ فی الحال تو یہی دیکھنے میں آ رہا ہے کہ پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی جماعتوں کی قیادت فل کورٹ کے اکثریتی فیصلے کو انصاف کی فتح قرار دے رہے ہیں۔ حکومت اور اس کے اتحادیوں کی جو بھی رائے ہے، اس کا انھوں نے اظہار کر دیا ہے۔ اب اگلا مرحلہ آئین اور قانون پر عملدرآمد کا ہے۔ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ سب پر بائنڈنگ ہے۔ فیصلے میں اگر کہیں کوئی سقم ہے یا کوئی چیز ایسی مس ہو گئی ہے جسے سننا لازم تھا تو اس کے لیے قانونی راستہ موجود ہے۔
[ad_2]
Source link