[ad_1]
فیفا ورلڈ کپ 2022 : عالمی رویہ
آج کل فیفا ورلڈ کپ سرخیوں میں ہے۔ بہترین اور اعلی قسم کے انتظامات کے ساتھ ہی قطر نے کھلاڑیوں اور دنیا بھر سے قطر پہنچنے والے فٹبال شائقین کو ہرطرح کی سہولیات فراہم کرنے کی بھرپور کوشش تو کی ہے لیکن ایک ماہ تک جاری رہنے والے اس ٹورنامنٹ کے آغاز کو محض ابھی چند دن ہی گزرے ہیں کہ میزبان ملک قطر کو الزامات اور تنقید کا مستقل سامنا ہے۔ خاص طور پر ملکی اور مغربی میڈیا کی جانب سے فیفا ورلڈ کپ کے دوران قطر کے قوانین کے مطابق لگی پابندیوں پر مختلف الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ جنہیں دیکھ کر ایسا گمان ہوتا ہے کہ کئی ممالک کے لئے یہ بات گلے کی پھانس بن کر رہ گئی ہے کہ قطر کو ایک بڑی ذمہ داری دے کر اسے اتنی اہمیت کیوں دی جارہی ہے۔ان الزامات سے پرے اگر دیکھا جائے تو قطر واقعی ایک تاریخ رقم کرنے جا رہا ہے۔ قطر نے اپنی مسلم شناخت اور روایات کو فیفا ورلڈ کپ کی تقریب میں بھی برقرار رکھنے کی پوری کوشش کی ہے۔ جس پر کئی ممالک اور کھلاڑیوں سمیت عوام کی ایک بڑی تعداد نے اپنا احتجاج درج کرایا ہے۔ قطر کا اپنی اسلامی شناخت اور روایات کا پاس رکھنا کوئی معیوب بات تو نہیں ہے کہ جس پر اس قدر واویلا مچایا جارہا ہے۔ اگر ہم اپنے ملک ہندوستان کی ہی بات کریں تو کالجوں ، یونیورسٹیوں کی تقاریب، ادبی محفلوں اور کھیل و تفریح کے مواقع کا آغاز اکثر پوجا اور موم بتیاں جلا کر کیا جاتا ہے۔ میزبانوں کی جانب سے اس طرح کے پروگراموں میں شامل ہونے والے مہمانوں کی پیشانی پر اکثر ٹیکا لگا کر ویلکم بھی کیا جاتا ہے جس پر کسی نے احتجاج نہیں کیا۔ اس رسم کو ہندوستان کی روایت و ثقافت کا ایک حصہ سمجھا گیا اور غیر ہندوؤں کی طرف سے خوش دلی کے ساتھ قبول بھی کیا گیا۔ قطر میں جاری فیفا ورلڈ کپ کے دوران اسٹیڈیم میں شراب فروخت کرنا ، چھوٹے لباس پہننا، ہم جنس پرستی کا کھلے عام مظاہرہ کرنا یا ان کی حمایت کرنا منع ہے۔ ان اصولوں کی یہ کہہ کر زبردستی پاسداری بھی کروائی جا رہی ہے کہ ” ہمارے ملک میں سبھی کو خوش آمدید ہے۔ لیکن دیگر ممالک سے قطر آنے والے شہریوں کو ہماری روایت و ثقافت کا احترام کرنا ہوگا۔ فیفا ورلڈ کپ کی وجہ سے کچھ دنوں کے لئے ہم اپنی روایات کو پس پردہ نہیں ڈال سکتے ہیں ۔”
مغربی میڈیا کی خبروں کے مطابق قطر پر انسانی حقوق کی پامالیوں کا بھی الزام ہے جس کی قطر نے تردید کی ہے۔ شائقین کی طرف سے انتظامات کو لے کر کئی شکایات بھی سامنے آنے لگی ہیں۔
ایک تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ تقریباً سبھی کھیل ، سیاست کا ایک حصہ بنتے جارہے ہیں۔ بات اگر کرکٹ کی ہی کریں تو اس میں بھی کرکٹ کے ساتھ ساتھ سیاست بھی خوب کھیلی جانے لگی ہے ۔ عام مسلمان اس بات سے بہت خوش ہیں کہ قطر نے فیفا ورلڈ کپ میں اسلامی روایات کو برقرار رکھا ہے ۔لیکن ساتھ ہی خوش فہمیوں کا بھی شکار ہوئے ہیں کہ فیفا ورلڈ کپ کے دوران قطر نے شراب پر مکمل پابندی لگاکر دنیا کے سامنے اپنا لوہا منوالیا ہے۔ جب کہ صحیح خبر یہ ہے کہ اسٹیڈیم کی حد تک شراب کی فروخت پر پابندی لگائی گئی ہے، اسٹیڈیم کے باہر ٹکٹ ہولڈرز کو باقاعدہ شراب فروخت کی جارہی ہیں۔ شراب اسلام میں تو حرام ہے لیکن ابھی قطر میں پوری طرح حرام “قرار” نہیں دی گئی ہے ۔پابندی تو خیر اسٹیڈیم میں گندگی پھیلانے پر بھی لگائی گئی ہے اور گندگی پھیلانے پر جرمانہ لگایا گیا ہے ، لیکن نہ جانے کیوں ہمیں اکثر وہ باتیں نظر نہیں آتیں جن سے ہمیں کچھ سیکھنے کو مل سکتا ہے۔ انٹرنیٹ پر فیفا ورلڈ کپ سے متعلق کئی فیک خبریں اور پرانے وڈیوز کو اس کھیل سے جوڑ کر بنا تحقیق کئے خوب شیئر بھی کیا جارہا ہے۔ کسی پرانے وڈیو میں کچھ لوگوں کو اسلام قبول کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے ، کچھ پرجوش مسلمان بھائیوں اور بہنوں نے اس کا تعلق بھی لگے ہاتھوں قطر والے فیفا سے جوڑ دیا ۔ اس واقعہ کو قطر سے جوڑ کر اور انہیں شیئر کرکے اسلام کی ” دعوت و تبلیغ ” بھی کی جارہی ہے۔ اسی دوران افتتاحی تقریب میں شامل مشہور امریکی اداکار مورگن فری مین کے اسلام قبول کرنے کی غلط خبر بھی انٹرنیٹ پر گردش کرنے لگی، جسے بغیر تصدیق شیئر کیا گیا۔
عوام کے درمیان غلط خبریں اور غلط فہمیاں پھیلانا کوئی مناسب عمل تو نہیں ۔آپ لوگ اس قدر جذباتی کیوں ہوجاتے ہیں۔ فیفا ورلڈ کپ ایک تفریحی مگر متنازعہ گیم رہا ہے جس کا اسلام سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے۔ اب اسے اکثر مسلمانوں کی طرف سے یوں دکھایا اور شیئر کیا جانے لگا ہے جیسے قطر میں کوئی مذہبی اجتماع شروع ہوگیا ہو۔ انٹرنیٹ پر کئی پرجوش نوجوان غیر مسلموں سے بلا ضرورت بحث کررہے ہیں، نتیجتاً گالیاں بھی سن رہے ہیں۔ یہی بحث و تکرار جب حد سے گزرنے لگتی ہے تو غیر مسلموں کی طرف سے اسلام اور اسلامی شخصیات کے خلاف زہر اگلا جاتا ہے۔ کیا یہ افسوس کی بات نہیں کہ کہیں نا کہیں اس کی وجہ آپ بن رہے ہیں۔وہ غیر مسلم جو اب تک ایک ایشیائی ملک میں فیفا ورلڈ کپ کا انعقاد ہونے پر خوش تھے ، افسوس کہ اکثر مسلمانوں کے رویوں اور بلاضروت تنقیدی تبصروں سے بے زار نظر آنے لگے ہیں۔ اس قدر جذباتی ہونا کہ لوگوں سے زبردستی آ بیل مجھے مار کے مصداق بحث و مباحثہ کرنے لگنا ، دوسرے طبقات کو نیچا دکھانا ، ان کی روایتوں کا مذاق اڑانا ، اسلام اور اچھے مسلمان کا شیوہ ہرگز نہیں۔ ابھی یہ کھیل مہینہ بھر جاری رہنے والا ہے ۔اپنے جذبات کو قابو میں رکھتے ہوئے ایسی حرکتیں نا کریں کہ دوسروں کو اسلام اور مسلمانوں سے نفرت ہونے لگے اور تنقید و تضحیک کے مزید مواقع مل جائیں۔
پڑوسی ملک پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہوا ہے کہ ایڈیڈاس کی فٹبال “الرحلہ” پاکستانی علاقے سیالکوٹ میں بنائ گئی ہے جو تمام مقابلوں میں استعمال ہوگی۔ افسوس ہم ہندوستانی چونکہ ابھی حرام -حلال، ہندو -مسلم، لو جہاد ، اونچی ذات -نیچی ذات وغیرہ کی تمیز سیکھ اور سکھا رہے ہیں، اس لئے دوسروں کی ترقیوں پر تنقید یا تالیاں پیٹنے کے علاؤہ فی الحال ہم کچھ کر بھی نہیں سکتے ہیں۔
_حمنہ کبیر
(بشکریہ انقلاب)
[ad_2]
Source link