[ad_1]
کبھی بڑی اچھی فلمیں بنا کرتی تھیں جنھیں خاندان کے ساتھ بیٹھ کر دیکھا جا سکتا تھا۔ تقسیم ہند سے پہلے جب بلیک اینڈ وائٹ فلمیں بنتی تھیں، اس وقت ہیروئنیں پورا لباس پہنتی تھیں۔ کوئی فحاشی یا بے ہودگی نہیں ہوتی تھی، نہ ذومعنی جملے ہوتے تھے، پھر بھی فلمیں خوب چلتی تھیں۔ پاکستان میں تو تقریباً اردو فلمیں بننا بند ہوگئی ہیں۔ تشدد اور مار دھاڑ سے بھرپور فلمیں نوجوان نسل میں تشدد پیدا کر رہی ہیں، کیا وجہ ہے لوگ اب تک محمد علی، زیبا، سنتوش کمار، وحید مراد، درپن، شمیم آرا، نیر سلطانہ، شاہد، رانی، ندیم اور صبیحہ خانم کو نہیں بھولے۔ سرحد کے پارکی بات کی جائے تو وہ بہت بڑی انڈسٹری ہے، بہت بڑا ملک ہے، لیکن وہاں بھی کہانی نہ ہونے کے برابر ولگر ڈانس اور غیر شائستہ جملے۔ خاندان کے ساتھ بیٹھ کر کوئی بھی یہ فلمیں نہیں دیکھ سکتا، لیکن وہاں بھی لوگ فلموں کے اس سنہرے دور کو یاد کرتے ہیں جو سنگیت، مضبوط کہانی اور جاندار پلاٹ کی وجہ سے آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ وہاں آج بھی لوگ سہگل کے گیتوں کے دیوانے ہیں، لوگ اب بھی دلیپ کمار، راج کپور، مدھوبالا، نوتن، تلنی جیونت، وحیدہ رحمان، نمی، ثریا، گیتا بالی، اشوک کمار، منور سلطانہ، نسیم بانو اور اب ششمیتا سین، ایشوریا رائے، مادھوری ڈکشٹ کے بعد وہاں بھی اس لحاظ سے سناٹا ہے کہ نئی نئی لڑکیاں جو آ رہی ہیں وہ صرف جسم کی نمائش کے لیے آ رہی ہیں۔ اسی لیے نئی ہیروئنوں میں سے کسی کا نام بھی یاد نہیں۔ جتنا مختصر لباس ہوگا اتنی ہی زیادہ فلمیں ملیں گی اور تماشائی بھی سینما ہاؤس کی طرف رخ کریں گے۔
فلموں میں ایک یا دو کامیڈین بھی ہوتے تھے، لیکن غیر منقسم ہندوستان میں ایک خاتون کامیڈین نے بڑی دھوم مچائی، وہ برصغیر کی پہلی خاتون کامیڈین تھیں جنھیں لوگ آج بھی نہیں بھولے۔ وہ ہیں اوما دیوی یعنی ’’ ٹُن ٹُن‘‘ یہ نام انھیں دلیپ کمار نے دیا تھا، جو ان پر خوب جچتا تھا۔ اوما دیوی گیارہ جولائی 1923 میں علی گڑھ کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوئیں۔ وہ ڈھائی سال کی تھیں جب ان کے والدین وفات پا گئے، ایک بڑا بھائی تھا جو اوما سے نو سال بڑا تھا، جب وہ پانچ سال کی ہوئیں تو بڑا بھائی بھی مرگیا۔ بعد میں اوما کو پتا چلا کہ اس کے والدین اور بڑے بھائی کو جائیداد کی خاطر رشتے داروں نے قتل کر دیا۔ اوما کی زندگی بڑی تکلیف دہ تھی، وہ اپنے چچا کے گھر رہتی تھیں، لیکن ان کی حیثیت خاندان میں بالکل نوکرانی کی تھی۔ خاندان میں جب کسی کے گھر کوئی تقریب ہوتی اوما کو وہاں بھیج دیا جاتا۔ گھر میں وہ سارے کام کرتیں لیکن کھانے کو روکھی سوکھی ملتی تھی۔ اوما کو سنگیت سے بڑا لگاؤ تھا، چھپ کر ریڈیو پر گانے سنتی تھی اور خود آواز میں آواز ملا کرگاتی بھی تھیں، گانا سننے پر اسے مار بھی پڑتی تھی، اسی طرح اوما بیس سال کی ہوگئی۔ ایک بار اس کا دلی آنا ہوا، وہاں ایک شادی تھی اور اوما کو کام کے لیے بلایا گیا تھا، اس تقریب میں اس کی ایک سہیلی بن گئی جس کی جان پہچان بمبئی میں کچھ فلم کے لوگوں سے تھی، اوما نے وہ تعارفی خط جو اس کی سہیلی نے دیے تھے سنبھال کر رکھ لیے۔ اس کی سہیلی بھی جاب کرتی تھی، واپس اپنے گاؤں آ کر اوما نے تہیہ کر لیا کہ وہ پلے بیک سنگر ضرور بنے گی۔ زمانہ اتنا خراب نہیں تھا جتنا آج ہے۔ سو جب گھر سے بھاگ کر اوما بمبئی آئی تو پلو میں بندھے کچھ پیسے تھے جو اس کی دلی والی سہیلی نے دیے تھے۔ بمبئی اسٹیشن پہ اتر کے اس نے پلو میں سے تین چٹھیاں نکالیں اور اسٹیشن پہ بیٹھے ہوئے ایک شخص سے کہا کہ ان پرچیوں میں سے ڈائریکٹر نتن بوس کی پرچی الگ کردے اور اسے پتا سمجھا دے، تبھی اس آدمی نے کہا کہ تم سائیکل رکشہ پکڑلو میں اسے راستہ سمجھا دیتا ہوں۔ اوما نے ایسا ہی کیا رکشہ پکڑا اور سیدھی نتن بوس جو مشہور فلم ڈائریکٹر تھے اور وہ بنگالی تھے، کے پاس پہنچ گئی۔ اوما نے ان کو اپنی سہیلی کی چٹھی دی تو انھوں نے اوما کو اپنے اسسٹنٹ جواد حسین کے حوالے کیا، وہ اوما کو لے کر اپنے گھر گئے اور اسے وہاں ٹھہرایا اور ان کی بہت مدد کی۔ بمبئی میں ان کی ملاقات جواد حسین نے نرملا دیوی جو گائیکہ تھیں اور ارون آہوجہ جو ڈائریکٹر تھے سے کرائی، ان دونوں میاں بیوی نے اوما کی بہت مدد کی اور مختلف ڈائریکٹروں،پروڈیوسروں اور میوزک ڈائریکٹروں سے کروائی۔ یہ دونوں میاں بیوی مشہور اداکار گووندا کے ماں باپ تھے۔
بمبئی ہی میں اوما کی ملاقات انسپکٹر اختر عباس قاضی سے ہوئی جو محکمہ آب کاری میں ملازم تھے۔ دونوں میں پیار ہو گیا لیکن بٹوارے کے بعد اختر عباس قاضی کو لاہور جانا پڑا، مگر اوما نے اس دکھ کو سنگیت میں سمو دیا اور گائیکہ بننے کی دھن میں لگ گئیں۔ انھیں پتا چلا کہ مشہور فلم ڈائریکٹر عبدالرشید کاردار ایک فلم بنا رہے ہیں۔ اوما شروع ہی سے بہت بے باک تھیں، جو ان کے من میں آتا بلاجھجک بول دیتیں۔ ایک دن وہ فلم اسٹوڈیو جا پہنچیں اور سامنے کھڑے ہوئے کاردار صاحب سے پوچھا ’’کاردار صاحب کہاں ملیں گے، مجھے ان کی فلم میں گانا گانا ہے۔‘‘ یہ بے باکی دیکھ کر کاردار صاحب سوچ میں پڑ گئے اور انھوں نے اوما دیوی کو نوشاد صاحب کے اسسٹنٹ غلام محمد کے پاس بھیجا تاکہ وہ اس کی گائیکی کا ٹیسٹ لے سکیں، اوما نے انھیں فلم ’’ زینت‘‘ میں نور جہاں کا گایا ہوا گیت سنایا:
آندھیاں غم کی یوں چلیں، باغ اجڑ کر رہ گیا
غلام محمد یہ تو سمجھ گئے کہ یہ لڑکی موسیقی کے اسرار و رموز سے نابلد ہے، لیکن ریڈیو سن کر اس نے اپنی آواز کو اچھا کر لیا تھا، وہ موسیقی سے نابلد اور ان پڑھ ہونے کے باوجود گانا سُر میں گایا۔ پھر ایک دن وہ نوشاد صاحب کے گھر پہنچ گئیں، زور زور سے دروازہ پیٹا اور آوازیں بھی نکالیں کہ ’’ نوشاد صاحب! دروازہ کھولیے مجھے آپ کی فلم میں گانا گانا ہے، اگر آپ نے مجھ سے گانا نہ گوایا تو میں آپ کے گھر کے سامنے جو سمندر ہے اس میں ڈوب کر جان دے دوں گی۔‘‘ نوشاد صاحب نے دروازہ کھولا تو ایک دبلی پتلی لڑکی سامنے کھڑی تھی۔ نوشاد صاحب نے اسے اندر بلایا اور گانے کے لیے کہا۔ اوما نے گانا سنایا، نوشاد صاحب کو اوما کا بے باک انداز اور اس کی سریلی آواز دونوں پسند آئے اور انھیں پانچ سو روپے ماہوار پر نوکری پر رکھ لیا گیا۔ انھی دنوں کاردار صاحب فلم ’’درد‘‘ بنا رہے تھے، موسیقی نوشاد صاحب کی تھی، انھوں نے یہ ناقابل فراموش گانا اوما سے گوایا، جو آج تک پہلے دن کی طرح مشہور ہے۔ اس گانے کو خوبصورت اداکارہ منور سلطانہ پر فلمایا گیا تھا:
افسانہ لکھ رہی ہوں دلِ بے قرار کا
بس پھر کیا تھا، یہ فلم 1946 میں ریلیز ہوئی تھی، اس کے بعد تو ہر موسیقار بس اوما سے ہی گانے گوانا چاہتا تھا۔ موسیقی کے شایقین آج بھی ان گانوں کو سنتے ہیں:
بے تاب ہے دل درد محبت کے اثر سے
جس دن سے میرا چاند چھپا میری نظر سے
یہ گیت اوما نے ثریا کے ساتھ گایا تھا، بہت مقبول ڈوئٹ تھا اپنے وقت کا۔
(۲)۔ کاہے جیا ڈولے وہ کہا نہیں جائے
(۳)۔ یہ کون چلا میری رگ رگ میں سما کر
(۴)۔ دل کو لگا کے ہم نے کچھ بھی نہ پایا، چین گنوایا
(۵)۔ آج مچی ہے دھوم، جھوم خوشی سے جھوم
(۶)۔ میری پیاری پتنگ چلی بادل کے سنگ
(۷)۔ من بھاون ساون آیا رنگ جمایا
یوں تو اوما دیوی نے کئی موسیقاروں کے ساتھ گیت گائے لیکن سب سے زیادہ نوشاد صاحب کے ساتھ گائے۔ انھوں نے تقریباً پینتالیس فلموں میں گیت گائے جو سب کے سب مقبول ہوئے لیکن:
افسانہ لکھ رہی ہوں دل بے قرار کا
آنکھوں میں رنگ بھر کے تیرے انتظار کا
کا جواب نہیں۔ اس کی موسیقی نوشاد صاحب نے دی تھی۔ (جاری ہے)
[ad_2]
Source link