ہم یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ اولاد کی تربیت کرتے وقت سارے ادب، آداب، تمیز فقط لڑکیوں کو سکھانے ہوتے ہیں۔ میں جب اپنے ارد گرد دیکھتی ہوں کہ لوگوں کے بیٹے لکھ پڑھ کر بھی کیسے ادب اور آداب سے بہت دور ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ ہم تربیت صرف لڑکیوں کی کیوں کرتے ہیں۔ مستثنیات تو دنیا میں ہر جگہ موجود ہیں مگر ہوتا یہی ہے کہ لڑکیوں پر سختی لڑکوں کی نسبت کہیں زیادہ کی جاتی ہے ۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لڑکے بالکل شتر بے مہار کی طرح ہو جاتے ہیں۔
لڑکیوں کو اٹھنے بیٹھنے پر روک ٹوک بڑی چھوٹی عمر سے ہی ہو جاتی ہے جب کہ لڑکوں کو کوئی نہیں کہتا کہ ٹانگیں سمیٹ کر بیٹھو۔ لڑکے ہر طرف اچھل کود کریں تو کہا جاتا ہے کہ لڑکوں کی جبلت میں اچھل کود ہے جب کہ لڑکیوں کو ذرا سی اچھل کود کرنے پر کہا جاتا ہے کہ لڑکوں جیسی حرکتیں کر رہی ہے۔ بچپن سے لڑکوں کو اٹھنے بیٹھنے پر ٹوکا نہیں جاتا اسی لیے وہ بڑے ہو کر بھی کسی کے کہے میں نہیں ہوتے۔ گھروں پر دیکھیں یا بازاروں میں، اسکولوں اور کالجوں میں تو وہ آتی جاتی عورتوں کو تاڑتے نظر آتے ہیں کیونکہ انھیں نگاہ نیچی رکھنے کا کوئی نہیں کہتا۔
صبح سویرے اٹھ کر اپنے دن کے کاموں کا آغاز اپنے بستر بنانے سے کریں، اپنے بستر کی شکنیں نکالیں، سرہانہ سیدھا کر کے رکھیں اور چادر یا کمبل تہہ کر کے رکھیں ۔ اگر غسل لیں تو اپنا تولیہ خود ایسی جگہ پھیلائیں جہاں باقی گھر کے تولیے سکھائے جاتے ہیں۔ اگر آپ کے کپڑے دھونے والے ہیں تو انھیں کم از کم ایسی جگہ پر رکھیں جہاں پر باقی گھر والے اپنے دھونے والے کپڑے رکھتے ہیں نہ کہ بستر پر یا غسل خانے کے فرش پر پھینک دیں ۔ اپنے جوتے خود پالش کریں، انھیں اتاریں تو جرابیں اور جوتے سیدھے کر کے اور سلیقے سے اپنی جگہ پر رکھیں ۔ اپنی ہر چیز کو خود سنبھالنا سیکھیں نہ کہ با ر بار اپنی چیزیں خود دائیں بائیں رکھ کر دوسروں سے باز پرس کریں یا توقع کریں کہ وہ آپ کو ڈھونڈ کردیں ۔ اپنا خیال بھی رکھیں اور اپنے ارد گرد لوگوں کا بھی، اپنے سے چھوٹوں کا بھی اور بزرگوں کا بھی۔ خود فعال ہوں اور دوسرو ں کے لیے کارآمد ہوں نہ کہ سستی سے اپنا ہر کام دوسروں پر ڈالیں۔
اپنے بچوں میں وہ اوصاف پیدا کریں کہ جن کی ہم دوسروں کے بچوں سے توقع کرتے ہیں۔ انھیں سچ بولناسکھائیں، ایمانداری سے کام کرنا ، وعدہ خلافی نہ کرنا، دوسرو ں کا دل نہ دکھانا، وقت کی پابندی اور قدر کرنا… نہ اپنا وقت ضایع کریں اور نہ ہی دوسرو ں کا ۔ کسی کو دھوکہ دیں اور نہ جھوٹا وعدہ کریں ۔ جو کام وہ نہیں کر سکتے، اسے تسلیم کریں اور معذرت کر لیں ۔ محنت کی عادت ہو، اپنے کاموں کے علاوہ دوسروں کی مدد پر بھی تیار رہیں ۔ کسی کا حق نہ ماریں، کسی ایسے کام کے لیے سفارش نہ کروائیں جس کے وہ اہل نہیں اور کوئی اپنا اختیار استعمال کر کے ان کو وہ دلوا دے جس پر کسی اور کا حق تھا مگر اس کے پاس سفارش نہ تھی۔ ناجائز کام نہ کریں اور نہ کروائیں ، اسی دنیا میں بھی اس کا بدلہ ملتا ہے اور آخرت میں بھی ۔ کام چوری اور کاہلی سے بچیں۔
جو لمحہ آپ کے پاس ہے، اسی میں جو کرنا ہے وہ کرنا ہے۔ جو گزر گیا وہ تو گزر کیا اور جو کل آنا ہے، اس کا کسے علم۔اپنے بیٹوں کو بھی سکھائیں کہ گھر سے باہر نکلیں تو ایسا کچھ نہ کریں کہ دوسروں کی عزتیں غیر محفوظ ہوں۔ اپنی نگاہ کو نیچا رکھیں ۔اگر آپ بغیر کسی مادی چیز یا پیسے کے بھی کسی کے لیے کوئی مدد کر سکتے ہوں تو ضرور کریں۔ کسی کو پڑھا سکیں، کسی کو سودا سلف لا کر دے سکیں، کسی کو وقت دے سکیں کہ اس کی سن لیں اور تسلی دے دیں۔
کسی کی عیادت کو چلے جائیں، کسی کی گاڑی کو دھکا لگا دیں، کسی کے راستے سے پتھر ہٹا دیں ، کسی کو سڑک پار کروا دیں، کسی کو راستہ بتا دیں، کسی کے جنازے کو کندھا دے دیں… اور کچھ نہیں تو کسی کو مشورہ یا دعا ہی دے دیں، اس میں تو آپ کا کچھ بھی نہیں جاتا ۔ کسی بھی معاشرے کے سلجھاؤ میں جو اہم کردار مرد کا ہے، کل کا وہ مرد، آج آپ کی گود کا بچہ ہے۔ اس کا معاشرے کا ایک مفید فرد بنانا، ملک کا ایک ذمے دار شہری بنانا اور ایک ایسا انسا ن بنانا کہ جس پر کل آپ کو خود فخر محسوس ہو، آپ ہی کے ہاتھ میں ہے۔
عموما کہا جاتا ہے کہ لڑکے گھروں سے باہر نکلتے ہیں تو ادب آداب سیکھ جاتے ہیں، یہ بالکل غلط سوچ ہے، بچے کی تربیت کی ذمے داری آپ کی ہے، اسے اچھا انسان بنانا آپ کے ہاتھوں میں ہے لیکن اگر آپ نے یہ کام گھر سے باہر کے لوگوںکو دے دیا تو یقین کریں کہ آپ کا بچہ وہ سب کچھ سیکھے گا جس کا آپ نے کبھی خواب بھی نہیں دیکھا ہو گا۔ انھیں صحت مند رجحانات کے ساتھ پروان چڑھائیں، اچھی عادات انھیں گھول گھول کر پلائیں ورنہ گھر سے باہر نکل کر وہ غلط ہاتھوں میں پڑ کر نہ صرف اپنی تہذیب کو بھول جائیں گے بلکہ نشے کے عادی بھی بن سکتے ہیں اور مجرم بھی۔ اللہ تعالی سب کے بچوں کو محفوظ و مامون رکھے اور ہمیشہ سیدھی راہ پر چلائے ۔ آمین