[ad_1]
اقتباس۔’’پنجرے میں پیدا ہونے والے پرندے سمجھتے ہیں کہ اڑنا ایک بیماری ہے،‘‘ ایک Alejandro Jodorowsky گہرا استعارہ ہے جو ماحول اور کنڈیشننگ کی طرف سے عائد کردہ حدود کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ افراد جو قید کیے گئے ہیں، خواہ وہ معاشرتی اصولوں، نفسیاتی رکاوٹوں یا وسیع تر امکانات کے سامنے نہ ہونے کی وجہ سے، آزادی اور نئے مواقعے کو غیر فطری یا خطرناک سمجھ سکتے ہیں۔
یہ محدود عقائد یا نظاموں کی حدود میں رہنے کے انسانی تجربے سے بات کرتا ہے،جو لوگ سخت ڈھانچے میں پیدا ہوئے ہیں، چاہے وہ جابرانہ ہوں یا محض مختصر طور پر بیان کیے گئے ہوں، وہ اپنی حدود کو معمول کے مطابق سمجھ سکتے ہیں۔ پھر ’’اڑنا‘‘یا آزاد ہونے کا خیال ایک ایسی چیز بن جاتا ہے جو دھمکی آمیز یا غیر منطقی محسوس ہوتا ہے۔
وسیع تر معنوں میں، استعارہ اس بات پر خود عکاسی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ کسی کے ماحول، پرورش یا معاشرتی توقعات اس کے تصور کو کس حد تک تشکیل دے سکتی ہیں کہ کیا ممکن ہے یا کیا قابل قبول ہے۔ جوڈوروسکی، جو فلم اور فلسفے میں اپنے بصیرت انگیز کاموں کے لیے جانا جاتا ہے، اکثر آزادی کے موضوعات اور عام حدود سے ماورا ہونے کو چھوتا ہے۔ یہ اقتباس لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ ان پنجروں کو چیلنج کریں جن میں وہ خود کو پاتے ہیں ۔ چاہے وہ خود ساختہ ہوں، سماجی ہوں یا ساختی ہوں اور یہ تسلیم کریں کہ آزادی، اگرچہ پنجرے سے ناواقف ہے، بیماری نہیں ہے، بلکہ ایک قدرتی حالت ہے۔
یہ اس بات پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے کہ اگر ہم اپنی مجبوریوں سے مشروط نہ ہوں تو ہم آزادی اور امکانات کو مختلف طریقے سے کیسے سمجھ سکتے ہیں۔اگر کوئی صاحب آپ سے اچانک یہ سوال کرنے کی غلطی کر بیٹھیں کہ آپ کی زندگی کن مسائل سے دو چار ہے تو چند سیکنڈ کے لیے تو آپ سٹ پٹا جائیں گے کہ جواب کہاں سے شروع کروں اور پھر جب آپ کا ذہن آپ کا ساتھ دینے کے لیے راضی ہوجائے گا اور آپ کے منہ سے لگاتار اور مسلسل مسائل باہر نکلنا شروع ہوجائیں گے تو سوال کرنے والے صاحب تھوڑی ہی دیر میں اپنی جوتی چھوڑ کر بچاؤ بچا ؤ کی آوازیں لگا تے ہوئے بھاگنے پر مجبور ہوجائیں گے اور پھر وہ آگے آگے ہونگے اورآپ پیچھے پیچھے ہونگے اور ان صاحب کو اپنی جان بچانا آپ سے مشکل ہو جائے گی اور آئندہ وہ صاحب یہ ہی سوال کسی دوسرے سے کرنے کی جرأت تک نہیں کرسکیں گے۔
ہم دنیا کے وہ واحد لوگ ہیں کہ جن کے پیچھے مسائل نہ صرف یہ کہ زندگی میں ہاتھ دھو کر پیچھے پڑے ہوئے ہیں بلکہ مرنے کے بعد مسائل اور زیادہ شدت اختیار کرلیتے ہیں اور وہ زندگی کے مسائل کے مقابلے میں زیادہ خو فناک اور اذیت ناک ہوتے ہیں کیونکہ مرنے کے بعد میت کو دفنا نے کی جلدی ہوتی ہے اور آپ مار ے مارے ایک قبرستان سے دوسرے قبرستان میں پھر رہے ہوتے ہیں اور قبر ہے کہ کہیں خالی مل ہی نہیں رہی ہوتی ہے اور آپ گڑ گڑا کر گورکن کی منت سما جت کررہے ہوتے ہیں کیونکہ وقت تیزی سے نکلا جا رہا ہوتا ہے اور گو رکن ہے کہ مان کر ہی نہیں دے رہا ہوتا ہے اگر آپ کے نصیب اچھے ہوئے تو کم لین دین پر خالی قبر آپ کو مل جائے گی ورنہ اس کی بات سن کر آپ کو دن میں تارے دیکھنا نصیب ہوجا ئیں گے اور ادھر دوسر ی طرف میت بے تابی سے آپ کا انتظار کررہی ہوتی ہے۔
لگتا ایسا ہے کہ ہمیں مسائل کے انتقام کا سامنا ہے مسائل ہمارے چھوٹے چھوٹے اور بڑے ان گنت فیصلوں کا نتیجہ ہوتے ہیں ۔آدمی سالہا سال غلط فیصلے کرتا رہتا ہے اسباب جمع ہوتے رہتے ہیں اور پھر اچانک ایک دن نتیجہ منظر عام پر آجاتا ہے اور پھر ہمارا فوری رد عمل یہ ہوتا ہے کہ یہ اچانک کیا ہوگیا؟ اصل میں کبھی بھی اچانک کچھ نہیں ہوتا ہر واقعے کے پیچھے اسباب کی طویل قطار ہوتی ہے ہم ہر روز بے شمار چھوٹے بڑے فیصلے کرتے ہیں اور ان تمام فیصلوں کے مجموعی اثرات جلد یا بدیر ضرور برآمد ہوتے ہیں ہمارے ساتھ کچھ بھی ایسا نہیں ہورہا ہے جس کے لیے ہم یہ کہہ سکیں کہ اس کی کوئی امید نہ تھی یا یہ کہ غیر متوقع ہے یا ہمارے ساتھ انہونی ہوگئی ہے۔
چاہے مسائل ہوں یا سیاست دانوں ، بیورو کریٹس کی کرپشن اور لوٹ مار ہو یا اقتدار کے بھوکو ں کی یلغار کا سامنا ہو یہ تو پہلے ہی روز سے ظاہر ہو گیا تھا کہ آگے چل کر ہمارے ساتھ کیا کچھ ہونے والاہے کیونکہ جس راستے پر آپ چل رہے ہوتے ہیں اس کی منزل کا سب کو پتہ ہوتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ مسا فر انجانہ بنے چلتا رہے ،عقل کو استعمال کیے بغیر سب کاموں کا انجام ہمیشہ ایک ہی نکلتا ہے اور اس کے علاوہ کچھ اور نکل بھی نہیں سکتا ہے۔ قصور سارے کا سارا ہمار ااپنا ہوتاہے اور بے قصور بنے بنے ہم پھرتے ہیں ہر چیز کے ذمہ دار خود ہوتے ہیں اور سارا کا سارا الزام دوسروں پر ڈالتے پھرتے ہیں۔ کر پٹ، نااہل، بے ایمانوں کو منتخب کرکے اسمبلیوں میں خود بھیجتے ہیں اور جب وہ کر پشن ، لوٹ مار اور بے ایمانی کرتے ہیں تو دہائیاں ہم دیتے پھرتے ہیں لٹیروں کا ساتھ خود دیتے ہیں اور جب وہ اپنا کام کر چکے ہوتے ہیں تو پھرلٹنے کا واویلا کرتے پھرتے ہیں۔
ساری خرابیوں ، برائیوں ،کرپشن اور لوٹ مار کو چپ چاپ اندھے اور بہرے بنے ہوتے دیکھتے رہتے ہیں اور کچھ کرنے کے بجائے ہاتھ پر ہاتھ دھر کر معجزوں کا انتظار کر تے رہتے ہیں اور معجزے نہ ہونے کی صورت میں ان کے اعمال میں غیر ملکی سازش ڈھونڈتے پھرتے ہیں ہماری عقل دشمنی ، بزدلی اور کمزوری کا یہ عالم ہے کہ لوٹ مار ، کرپشن کے خاتمے کے لیے سپرمین ، اسپائیڈر مین اور ایلین کے منتظر ہیں کہ وہ آئیں اور انہیں اس عذاب سے نجات دلوائیں ۔ کیا ہماری مجر مانہ خاموشی اور بزدلی کے پیچھے بھی کوئی غیر ملکی سازش ہے ۔ کیا ہمارا گو نگے اور بہرے بننے میں بھی غیر ملکی ہاتھ ہے نہ جانے کیوں ہمیں اپنی بیہو دہ سو چوں پر شرم نہیں آتی ہے۔
کیا ہم اتنے بے شر م ہو چکے ہیں کہ سچ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں کیا ہم اس قدر بزدل ہوچکے ہیں کہ لٹیروں ، کرپٹ اور غنڈوں کے خلاف اٹھنے کے خیال سے کانپنے لگتے ہیں ۔ یاد رکھو، اپنے ساتھ ہونے والے بدترین سلوک پر مجر مانہ خاموشی اختیار کیے رکھنا دانش مندی یا عقل مندی نہیں ہے جانور بھی اپنے ساتھ ہونے والے بدترین سلوک اور ظلم کے خلاف چپ نہیں رہتے ہیں ۔ذہن میں رکھیے آپ کا یہ عمل بدترین بزدلی ہے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ اگر اب بھی آپ نے اپنی مجرمانہ خاموشی اور بزدلی ختم نہ کی تو یہ کر پٹ ، راشی لٹیر ے آپ کے چاروں طرف کھڑے ہوکر اسی طرح زور زور سے قہقہے لگا تے رہیں گے اور آپ ان کے سامنے زمین پر اکڑوں بیٹھے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ کر زور زور سے روتے رہیں گے کیونکہ وہ سب کے سب آپ کو کسی بھی صورت میں معاف کرنے کو تیار نہیں ہیں اور نہ ہی اپنے کرتو ت چھوڑنے کے لیے تیار ہیں ۔
[ad_2]
Source link