
[ad_1]
اتوار کی رات نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر افراتفری کا ماحول تھا۔ کچھ ٹرینوں کی روانگی میں تاخیر کی وجہ سے مسافروں کی بڑی تعداد پلیٹ فارم نمبر 12 اور 13 پر جمع ہوگئی۔

فائل تصویر آئی اے این ایس
اتوار کی رات نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر افراتفری کا ماحول تھا۔ دراصل، کچھ ٹرینوں کی روانگی میں تاخیر کی وجہ سے مسافروں کی بڑی تعداد پلیٹ فارم نمبر 12 اور 13 پر جمع ہوگئی۔ تاہم کسی نقصان کی کوئی خبر نہیں ہے۔
واضح رہے کہ نئی دہلی ریلوے اسٹیشن سے شیو گنگا ایکسپریس کی روانگی رات 08:05 پر طے تھی، لیکن وہ رات 09:20 پر روانہ ہوئی۔ اسی طرح سواتنترتا سینانی ایکسپریس کو رات 09:15 پر روانہ ہونا تھا، لیکن وہ پہلے ہی پلیٹ فارم پر کھڑی تھی۔ جموں راجدھانی ایکسپریس کو رات 09:25 پر روانہ ہونا تھا، لیکن ٹرین تاخیر سے چل رہی تھی۔ اسی وقت لکھنؤ میل کی روانگی رات 10:00 بجے طے تھی، یہ ٹرین بھی لیٹ تھی۔ مگدھ ایکسپریس کو رات 09:05 بجے روانہ ہونا تھا لیکن اسے کسی پلیٹ فارم پر کھڑا نہیں کیا گیا۔
ان ٹرینوں کی تاخیر کی وجہ سے پلیٹ فارم پر کافی بھیڑ جمع ہوگئی۔ حالات اس قدر کشیدہ ہو گئے کہ ہجوم کے انتظام کا چیلنج مہا کمبھ کے دوران نظر آنے والی افراتفری کی طرح لگنے لگا۔ تاہم کسی بھی ناخوشگوار واقعے کو روکنے کے لیے ریلوے انتظامیہ نے فوری طور پر بھیڑ کو کنٹرول کرنے کے لیے ضروری اقدامات کیے ۔
وزارت ریلوے کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر بہت زیادہ بھیڑ تھی تاہم بھگدڑ یا بھگدڑ جیسی صورتحال نہیں تھی۔ ہولڈنگ ایریا سے غیر محفوظ مسافروں کو لے جانے کے پروٹوکول پر عمل کیا گیا۔تاہم اب کچھ ٹرینیں روانہ ہوئی ہیں جس کی وجہ سے صورتحال بہتر ہوئی ہے۔ اس بات کی بھی تصدیق کی گئی کہ بھگدڑ جیسے ماحول سے کسی کے زخمی ہونے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ پندرہ فروری کو نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر بھگدڑ میں کئی مسافروں کی المناک موت ہو گئی تھی۔ اس معاملے میں ریلوے انتظامیہ نے چار مارچ کو پانچ افسران کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا تھا۔ ریلوے ذرائع کے مطابق پندرہ فروری کے واقعے کے ذمہ داروں کی نشاندہی کے لیے اعلیٰ سطحی انکوائری جاری ہے۔(بشکریہ نیوز پورٹل ’آج تک‘)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
[ad_2]
Source link