
ماہ رمضان میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ معمول بن گیا ہے۔
بدقسمتی سے اس ماہ میں ناجائز منافع خوری، ذخیرہ اندوزی اور مصنوعی قلت پیدا کر دی جاتی ہے جس سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حالیہ رمضان المبار ک میں مہنگائی کی صورتحال کیا ہے اور اس حوالے سے حکومت کیا اقدامات کر رہی ہے، اس کا جائزہ لینے کے لیے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، تاجر اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
محمد اجمل بھٹی
(سیکرٹری محکمہ پرائس کنٹرول اینڈ کموڈٹیزمینجمنٹ پنجاب)
تمام سٹیک ہولڈرز کی شمولیت نہ ہونا کمیونی کیشن گیپ ہے جس کی وجہ سے حکومتی پالیسیوں اور اقدامات کے حوالے سے درست آگاہی نہیں ہے۔ ہم نے سٹیک ہولڈرز کے ساتھ طویل مشاورت کی تاہم جن سے نہیں ہوسکی، ان کے ساتھ بھی جلد مشاورت کریں گے تاکہ عوام کے مسائل بروقت اور بہترین انداز میں حل کیے جاسکیں۔
ملک میں ہمیشہ مہنگائی کے حوالے سے سپلائی سائڈ پر توجہ ہوتی تھی مگر تاریخ میں پہلی مرتبہ ڈیمانڈ پر توجہ دی گئی ہے جس سے بہت بڑا شفٹ آیا ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ پرائس کنٹرول اینڈ کموڈٹیزمینجمنٹ کا الگ محکمہ قائم کیا گیا ہے جومہنگائی پر قابو پانے میں حکومت کی سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ ہمیں وزیراعلیٰ پنجاب کی واضح ہدایت ہے کہ سپلائی اور ڈیمانڈ میں خرابی پیدا نہیں ہونی چاہیے۔ ہر چیز کی ایک الگ سائنس ہے۔
مثال کے طور پر اگر دال ہے تو ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ ملک میں کہا ں کہاں اس کی پیدا وار ہے اور استعمال کتنا ہے، جو فرق ہو اسے درآمد کرکے پورا کرنا پڑتا ہے۔ ہم نے عالمی مارکیٹ کا بھی جائزہ لیا کہ وہاں کونسی دال کہاں کہاں موجود ہے اور اس کا ریٹ کیا ہے۔ عالمی مارکیٹ میں ریٹ کی تبدیلی کا اثر ہمارے ملک میں کس طرح آتا ہے۔ ہم نے تحقیق کرکے تمام سٹیک ہولڈرز کو مشاورت میں شامل کیا اور حکمت عملی تیار کی۔ اسی طرح سبزیوں کی سپلائی اور ویلیو چین ہمارے پاس ہے، کولڈ سٹوریج بھی اس سے منسلک ہے۔ ہم نے وزیراعلیٰ مریم نواز کی خصوصی ہدایت پر رمضان سے 4 ماہ قبل ہی مہنگائی روکنے پر کام کا آغاز کیا اور اہم اقدامات کیے گئے۔
ہم نے صورتحال کا پیشگی جائزہ لیا اور ہمارے پاس ہر چیز کی پرائس رینج آگئی تھی کہ ماہ رمضان میں قیمتیں کیا ہوں گی۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ اشیاء کی قیمتیںاسی رینج میں ہی رہی ہیں، مہنگائی نہیں ہوئی۔ میں کمیشن ایجنٹس اور آڑھتیوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جن کے تعاون سے مہنگائی پر قابو پانے میں مدد ملی۔
مہنگائی کے حوالے سے کسان کا پہلو بھی اہم ہے۔ مہنگائی پر قابو پانے کیلئے ہم کہیں کسان اور دیہی آبادی کا نقصان تو نہیں کر رہے؟گزشتہ برس کی نسبت مہنگائی کم ہے، وزیراعلیٰ پنجاب کی واضح ہدایت ہے کہ ناجائز منافع خوری پر کوئی رعایت نہ برتی جائے اور ہمہ وقت سٹیک ہولڈرز کو مشاورت میں شامل رکھیں۔ وزیراعلیٰ کی معاون خصوصی سلمیٰ بٹ بھی سٹیک ہولڈرز کی شمولیت پر یقین رکھتی ہیں۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس نے دنیا میں انقلاب برپا کر دیا ہے اور اس سے بڑی تبدیلیاں اور آسانیاں پیدا ہوئی ہیں۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ذریعے قیمتوں کی مانیٹرنگ کی جا رہی ہے،کمیوڈٹی پرائس مینجمنٹ سسٹم بنایا گیا ہے۔ پنجاب کی کسی بھی منڈی میںجو ریٹ طے ہوگا، اس کا ہمیں نوٹیفکیشن آئے گا۔
ہمیں اس سسٹم نے اشیاء کی قیمتوں میں تقابلی جائزے میں بھی مدد دی۔ ہم نے صوبے بھر میں پانچ سو سے زائد پرائس مانیٹرز تعینات کیے۔ یہ ہمارا سٹاف تھا جس کی تربیت کرائی گئی اور پابند کیا گیا کہ اپنے اپنے اضلاع سے سپاٹ پرائس بھیجیں۔ اس طرح ہمیں صوبے بھر سے روزانہ 15 ہزار سے زائد مقامات کے ریٹ موصول ہوتے ہیں اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ سرکاری ریٹ سے نرخ کتنے زیادہ ہیں۔ 90 فیصد سے زیادہ مقامات پر سستی اشیاء دستیاب ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب خود معاملات کی مانیٹرنگ کر رہی ہیں، روزانہ کی بنیاد پر ان سے رپورٹ شیئر کی جاتی ہے ۔
اسسٹنٹ اور ڈپٹی کمشنرز اپنے علاقوں میں پرائس کنٹرول، طلب اور رسد کو بہتر بنانے کیلئے کام کر رہے ہیں، جہاں مسائل ہوں وہاں کارروائی بھی کی جاتی ہے اور پرائس کنٹرول مجسٹریٹس ایکشن لیتے ہیں۔ حکومت اور شوگر ملز ایسوسی ایشن کے درمیان معاہدے کے تحت ماڈل بازار، سہولت بازار اورسیلز پوائنٹس پر130 روپے فی کلو چینی دستیاب ہے،باقی مارکیٹ کا ریٹ طلب اور رسد کے حساب سے ہے ۔ چکن کا ریٹ گزشتہ برس 850روپے فی کلو تھا اور اب 600 روپے سے زائد ہے۔ اگر پولٹری ایسوسی ایشن مل بیٹھ کر فیصلہ کرے کہ عوام کو ریلیف دینا ہے تو کوئی شک نہیں کہ قیمت اس سے کم نہ ہو۔ ہم نے پولٹری ایسوسی ایشن کے ساتھ بارہا میٹنگز کی اور اب بھی کوشش جاری ہے کہ قیمتیں مزید کم ہوں۔
آئمہ محمود
(سیکرٹری جنرل آل پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن)
پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑاملک ہے اور یہاں کہ 98 فیصد آبادی مسلم ہے۔ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا ہے مگر ہمارے بعض رویے افسوسناک ہیں۔ ماہ رمضان کا آغاز ہوتے ہی مہنگائی آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہے۔ ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری شروع ہوجاتی ہے اور لوگ اس مقدس مہینے میں بھی اپنے فائدے کی سوچتے ہیں جس سے دوسروں کا نقصان ہوتا ہے۔
اہ رمضان میں ہونے والی ہوشربا مہنگائی کو طلب اور رسد میں فرق کا بہانہ بنا کر جائز قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے، سوال یہ ہے کہ آٹے کی طلب میں اضافہ کیسے ہوسکتا ہے؟لوگ رمضان میں ایک وقت کا کھانا چھوڑ دیتے ہیں۔ اس کے باجود رمضان سے پہلے 800 روپے میں ملنے والا آٹے کا تھیلا 1200روپے تک پہنچ جاتا ہے، اسی طرح پیاز، ٹماٹر و دیگر اشیاء کی قیمتوں میں بھی اضافہ کر دیا جاتا ہے جو باعث افسوس ہے۔
ہر سال ماہ رمضان میں یہی صورتحال ہوتی ہے، میرے نزدیک یہ موثر حکمت عملی کا فقدان ہے، حکومت چند ماہ پہلے اس کی تیاری کیوں نہیں کرتی؟ مہنگائی جیسے بڑے مسئلے پر قابو پانے کیلئے حکومت، پارلیمنٹیرینز، پالیسی میکرز، بزنس کمیونٹی سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو مشاورت کرنا ہوگی اور یہ طے کرنا ہوگا کہ کس طرح لوگوں کو اشیائے ضرورت سستے داموں فراہم کی جاسکتی ہیں۔ پاکستان صدقہ و خیرات دینے والے ممالک میں سر فہرست ہے۔
ہمارے لوگ دل کھول کر صدقات دیتے ہیں، خیرات کرتے ہیں لیکن دوسری طرف ماہ رمضان کا چاند نظر آتے ہی بدترین مہنگائی کر دی جاتی ہے،اتنا بڑ ا تضاد کیوں؟ کیا ہمارے رویے منافقانہ ہیں یا محض دکھاوے کیلئے خیرات دی جاتی ہے؟ ہمیں خود احتسابی کرنا ہوگی اور ناجائز منافع خوری، ذخیری اندوزی اور مصنوعی قلت پیدا کرنے جیسے رویوں کو ترک کرنا ہوگا۔ ماہ رمضان میں مہنگائی کے پیش نظر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کی حکمت عملی ناکام ہے بلکہ اس کا فقدان نظر آتا ہے۔اتوار بازاروں میں سرکاری نرخ پر ملنے والی اشیاء غیر معیاری ہیں، سٹورز میں بھی الگ الگ کاؤنٹرز موجود ہیں۔
حکومت نے یوٹیلیٹی سٹورز کو بالکل نظرانداز کر دیا ہے، ان سے فائدہ نہیں اٹھایا جارہا۔ حکومت کے ریلیف پیکیج عوام کو ریلیف نہیں دے رہے، ہمیں قوم کو بھکاری بنانے کی پالیسیوں کا از سرنو جائزہ لینا ہوگا اور اپنی حکمت عملی بدلنا ہوگا۔ حکومت کو ماہ رمضان سے پہلے ہی ایسی پالیسی بنانی چاہیے کہ رمضان میں کسی کو تکلیف نہ ہو، سب کو مناسب قیمت پر اشیاء دستیاب ہوں۔
اس کے ساتھ ساتھ مزدوروں کا خصوصی خیال رکھا جائے، ان کے لیے صنعتی زونز میں قائم فیئر پرائس شاپس پر سستی اور معیاری اشیاء کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ حکومت کو محلہ کی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دینی چاہئیں جو اشیاء کے معیار، قیمت، سپلائی اور ڈیمانڈ کو مانیٹر کر یں اور جہاں خرابی ہو اسے دور کریں۔
حافظ محمد عارف
(صدر کریانہ مرچنٹس ایسوسی ایشن پنجاب)
پرائس کنٹرول کا الگ محکمہ بننے اوراس کے سیکرٹری کی تعیناتی سے ہمیں خوشی ہوئی، امید ہے کہ اب میکنزم تبدیل ہوگا اور اس میں بہتری بھی آئے گی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہمیں مجسٹریٹ کی تعیناتی پر کوئی اعتراض نہیں تاہم روایتی طریقوں سے معاملات بہتر نہیں کیے جاسکتے، نظام کو درست کرنے کی ضرورت ہے وگرنہ مسائل حل نہیں ہوں گے۔
مہنگائی کا تعلق لوگوں کی قوت خرید سے ہے، جس کے پاس پیسے ہیں، اس کیلئے 130 روپے فی کلو چینی بھی سستی ہے اور جس کے پاس پیسے نہیں، اسے 100 روپے بھی زیادہ لگیں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت عوام کو ریلیف دینے کیلئے کیا پالیسی بناتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ غریب عوام کیلئے آج تک ہم سب نے کچھ نہیں کیا۔
معاشرے میں جو خرابیاں موجود ہیں، ان میں سب کا حصہ ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہاں سب غلط ہے۔ یہ کہنا کہ دنیا میں ماہ رمضان میں ڈسکاؤنٹ لگتے ہیں، ہمارے ہاں نہیں لگتے، بالکل غلط ہے۔ یہ روایتی بیانات ہیں، یہاں بھی بہت سارے لوگ عوام کی خدمت کیلئے بہترین کام کر رہے ہیں۔مرکزی کریانہ ایسوسی ایشن لاہور نے لاہور میں پہلی مرتبہ 250 فیئر پرائس شاپس لگائی ہیں۔
ہم نے کم آمدنی والے علاقوں میں یہ شاپس قائم کی ہیں جہاں 30 اشیائے خورونوش پر خصوصی رعایت دی جا رہی ہے۔اتنی رعایت رمضان سہولت بازاروں میں بھی نہیں ملتی تھی۔ اس ماہ رمضان میں بہترین بات یہ ہے کہ سوائے چینی کے کسی چیز کے ریٹ میںاضافہ نہیں ہوا۔ دالیں، چاول، گھی، آئل و دیگر اشیاء کی قیمتیں کنٹرول میں ہیں۔ آٹے کا ریٹ پہلے سے کم ہے۔ 10 کلو والے آٹے کے تھیلے کا ریٹ 855 روپے ہے جو 820 روپے میں سیل ہو رہا ہے۔
اس کے علاوہ ضروریات زندگی کی دیگر اشیاء بھی کم ریٹ پر دستیاب ہیں۔ کاروبار اچھا نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کی تنخواہ میں اضافہ نہیں ہوتا جس کی وجہ سے ان کی وقت خرید کم ہوتی ہے اور انہیں مہنگائی لگتی ہے۔ کاروبار کی ترقی کیلئے سازگار ماحول پیدا کرنا ہوگا۔ ریڑھی بان پر سب کا زور چلتا ہے، اسے برا بھلا کہہ دیا جاتا ہے، جرمانے بھی ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں چھوٹے کاروبار کو سپورٹ کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ریڑھی بان نے منتھلی بھی دینی ہوتی ہے جس کی وجہ سے قیمت کے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔ اس وقت ملک میں سسٹم بنانے کی ضرورت ہے۔
جب مہنگائی ہوتی ہے تو حکومت کو برا بھلا کہا جاتا ہے اور جب اچھا کام ہو تو چپ سادھ لیتے ہیں۔ حالیہ رمضان میں مہنگائی پر قابو پانے پر حکومتی کارکردی کو سراہتا ہوں۔ اس مرتبہ تمام سبزیاں سستی ہیں۔ آٹا، گھی، چاول سستے ہیں تو مہنگا کیا ہے؟ گزشتہ چند برسوں میں بہت زیادہ مہنگائی ہوئی جس کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔ مہنگائی کا حل ممکن ہے، اس کیلئے سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کرنا ہوگی۔ ہمارے ہاں آسان فارمولا یہ ہے کہ سب اپنا ملبہ دوسرے پر ڈال دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ سب اچھا ہے۔ اشیائے خورونوش کی قیمتوں کی کمی میں ایک بڑا چیلنج امپورٹ ہے۔
ہم پھل، دالیں و دیگر اشیاء امپورٹ کرتے ہیں، عالمی مارکیٹ میں ریٹ میں اتار چڑھاؤ کا اثر ہمارے ہاں بھی پڑتا ہے۔ مارکیٹ میں مقابلے کی فضا ہوتی ہے، ایسا نہیں ہوتا کہ دوکاندار 100 روپے والی چیز 500میں بیچے، دیگر دوکاندار بھی مارکیٹ میں موجود ہوتے ہیں۔ خریدار کو ہول سیل مارکیٹ کا اندازہ نہیں ہوتا، وہ دوکاندار کے پاس آتا ہے، جب قیمت میں اضافہ ہوتا ہے تو وہ دوکاندار کو ہی مورد الزام ٹہراتا ہے۔
ہم نے 14 فروری کو پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ چینی کی قیمت میں اضافہ ہوگا۔ چینی غلط ٹائم پر ایکسپورٹ کی گئی، 5 لاکھ ٹن چینی کا شارٹ فال ہے، اگر یہ پورا نہیں ہوا تو قیمت 200 روپے فی کلو تک جائے گی۔حکومت اور کاروباری طبقے میںا عتماد کا فقدان ہے جس کی وجہ سے مسائل ہیں۔ ہم عوام کو سہولیات دینے کیلئے حکومت کے ساتھ ہیں،ا ٓئندہ رمضان میں پورے پنجاب میں فیئر پرائس شاپس قائم کریں گے اور اس میں حکومت کا ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہوگا۔ اس وقت مہنگائی کی صورتحال ماضی کی نسبت بہتر ہے۔ طلب اور رسد کے فرق کی وجہ سے مہنگائی ہوتی ہے، اسے مینج کرنے سے تھوڑی بہت مہنگائی ہے وہ بھی ختم کی جاسکتی ہے۔