
ممتاز دَلِت/اچُھوت لکھاری “اوم پرکاش والمیکی” کی 1997 میں چھپنے والی آپ بیتی « جُوٹھن » سے ایک اقتباس، جس سے پڑوسی ملک کے معاشرے میں ذات پات کی لعنت کی شدت کی ایک ہلکی سی جھلک ملتی ہے۔ (ہندی سے ترجمہ: نعیم امین)
شادی بیاہ کے موقعوں پر، جب مہمان یا براتی کھانا کھا رہے ہوتے تھے تو چوہڑے دروازوں کے باہر بڑے بڑے ٹوکرے لے کر بیٹھے رہتے تھے۔ برات کے کھانا کھا چکنے پر جُوٹھی پَتَّلَیں (پتّوں سے بنی پلیٹیں) ان ٹوکروں میں ڈال دی جاتی تھیں، جنہیں گھر لے جا کر وہ جُوٹھن اکٹھی کر لیتے تھے۔ پوری کے بچے کھچے ٹکڑے، ایک آدھ مٹھائی کا ٹکڑا یا تھوڑی بہت سبزی پَتَّل پر پا کر باچھیں کھل جاتی تھیں۔ جُوٹھن چٹخارے لے کر کھائی جاتی تھی۔ جس برات کی پَتَّلَوں سے جُوٹھن کم اترتی تھی، کہا جاتا تھا کہ بُھکھڑ (بھوکے) لوگ آ گئے ہیں برات میں جنہیں کبھی کھانے کو کچھ نہیں ملا۔ سارا چَٹ کر گئے۔ اکثر ایسے موقعوں پر بڑے بوڑھے ایسی براتوں کا ذکر بہت ہی رومانوی لہجے میں سناتے تھے کہ اُس برات سے اتنی جُوٹھن آئی تھی کہ مہینوں تک کھاتے رہے تھے۔
پتَّلَوں سے جو پُوریوں کے ٹکڑے اکٹھے ہوتے تھے انہیں دھوپ میں سکھا لیا جاتا تھا۔ چارپائی پر کوئی کپڑا ڈال کر انہیں پھیلایا جاتا تھا۔ اکثر مجھے پہرے پر بیٹھایا جاتا تھا۔ کیونکہ سوکھی ہوئی پُوریوں پر کوّے، مرغیاں، کتے اکثر ٹوٹ پڑتے تھے۔ ذرا سی آنکھ بچی کہ پُوریاں صاف۔ اس لیے ڈنڈا لے کر چارپائی کے پاس بیٹھنا پڑتا تھا۔ یہ سوکھی پُوریاں برسات کے کٹھن دنوں میں بہت کام آتی تھیں۔ انہیں پانی میں بھگو کر ابال لیا جاتا تھا۔ ابلی ہوئی پُوریوں پر باریک مرچ اور نمک ڈال کر کھانے میں مزہ آتا تھا۔ کبھی کبھی گُڑ ڈال کر لُگدی (ٹکیا) جیسا بنا لیا جاتا تھا، جسے سبھی بہت شوق سے کھاتے تھے۔
آج جب میں ان سب باتوں کے بارے میں سوچتا ہوں، تو مَن کے اندر کانٹے اُگنے لگتے ہیں۔ کیسا جیون تھا؟ دن رات مَر کھپ کر بھی ہمارے پسینے کی قیمت محض جُوٹھن! پھر بھی کسی کو کوئی شکایت نہیں، کوئی شرمندگی نہیں، کوئی پچھتاوا نہیں۔
جب میں چھوٹا تھا، ماں کے ساتھ جاتا تھا، ماں پِتاجی کا ہاتھ بٹانے۔ تگاؤں (تِیاگیوں) کے کھانے کو دیکھ کر اکثر سوچا کرتا تھا کہ ہمیں ایسا کھانا کیوں نہیں ملتا؟ آج جب سوچتا ہوں، تو جی متلانے لگتا ہے۔
ابھی پچھلے سال میرے گھر پر سُکھ دِیو سنگھ تِیاگی کا پوتا سُریندر آیا تھا، کسی انٹرویو کے سلسلے میں۔ گاؤں سے میرا پتہ لے کر آیا تھا۔ رات میں رُکا۔ میری پتنی نے اسے ہر ممکن اچھا کھانا کھلایا۔ کھانا کھاتے کھاتے وہ بولا، “بھابھی جی، آپ کے ہاتھ کا کھانا تو بہت مزیدار ہے۔ ہمارے گھر میں تو کوئی بھی ایسا کھانا نہیں بنا سکتا ہے۔” اس کی بات سن کر میری پتنی تو خوش ہوئی، لیکن میں کافی دیر تک سوچتا رہا۔ بچپن کی یادیں دروازہ کھٹکھٹانے لگیں۔
سریندر تب پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔ اس کی بڑی بُوا یعنی سُکھ دِیو سنگھ تِیاگی کی لڑکی کی شادی تھی۔ ان کے یہاں میری ماں صفائی کرتی تھی۔ شادی سے دس بارہ دن پہلے سے ماں پِتاجی نے سُکھ دِیو سنگھ تِیاگی کے گھر آنگن سے لے کر باہر تک کے بے شمار کام کیے تھے۔ بیٹی کی شادی کا مطلب گاؤں بھر کی عزت کا سوال تھا۔ کہیں کوئی کمی نہ رہ جائے۔ پِتاجی نے گاؤں بھر سے چارپائیاں ڈھو ڈھو کر براتیوں کی قیام گاہ میں اکٹھی کی تھیں۔
برات کھانا کھا رہی تھی۔ ماں ٹوکرا لے کر دروازے سے باہر بیٹھی تھی۔ میں اور میری چھوٹی بہن مایا ماں سے سِمٹے بیٹھے تھے۔ اس امید میں کہ اندر سے جو مٹھائی اور پکوانوں کی خوشبو آ رہی ہے، وہ ہمیں بھی کھانے کو ملیں گے۔ جب سب لوگ کھانا کھا کر چلے گئے تو میری ماں نے سُکھ دِیو سنگھ تِیاگی کو دالان سے باہر آتے دیکھ کر کہا، “چودھری جی، ایب تو سب کھا کر چلے گئے۔۔۔ مہارے جاتکوں (بچوں) کو بھی ایک پتَّلَ پر دَھر کے کچھ دے دو۔” سُکھ دِیو سنگھ نے جُوٹھی پتَّلَوں سے بھرے ٹوکرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، “ٹوکرا بھر تو جُوٹھن لے جا رہی ہیں۔۔۔ اوپر سے بچوں کے لیے کھانا مانگ رِی ہے؟ اپنی اوقات میں رہ چوہڑی۔ اٹھا ٹوکرا دروازے سے اور چلتی بن!”
سُکھ دِیو سنگھ تِیاگی کے وہ الفاظ میرے سینے میں چاقو کی طرح اتر گئے تھے، جو آج بھی اپنی جلن سے مجھے جُھلسا رہے ہیں۔ اُس روز میری ماں کی آنکھوں میں (جنگ کی دیوی) دُرگا اتر آئی تھی۔ ماں کا ویسا روپ میں نے پہلی بار دیکھا تھا۔ ماں نے ٹوکرا وہیں بکھیر دیا تھا۔ سُکھ دِیو سنگھ سے کہا تھا، “اِسے ٹھا کے اپنے گھر میں دَھر لے۔ کل تڑکے براتیوں کو ناشتے میں کِھلا دینا۔۔۔”
ہم دونوں بھائی بہنوں کا ہاتھ پکڑ کر تیر کی طرح اٹھ کر چل دی تھی۔ سُکھ دِیو سنگھ ماں پر ہاتھ اٹھانے کے لیے جھپٹا تھا، لیکن میری ماں نے بِنا ڈرے شیرنی کی طرح مقابلہ کیا تھا۔
اُس کے بعد ماں کبھی ان کے دروازے پر نہیں گئی اور جُوٹھن کا سلسلہ بھی اس واقعے کے بعد ختم ہو گیا تھا۔
وہی سُکھ دِیو سنگھ میرے گھر پر ایک بار آیا تھا۔ میری پتنی نے گاؤں دیہات کے بزرگ کے ناطے اُن کی عزت اور آؤ بھگت کی تھی۔ اس نے میرے گھر کھانا بھی کھایا تھا۔ لیکن جب وہ چلا گیا تو میرے بھتیجے سنجے کھیروال، جو بی۔ ایس سی کا طالب علم ہے، نے بتایا کہ “چاچا جی، انہوں نے صرف آپ کے گھر کھایا ہے، ہمارے گھر تو پانی بھی نہیں پیا تھا۔”