[ad_1]
دنیا بھر میں دماغی امراض کے حوالے سے نمائندہ تنظیم عالمی فیڈریشن برائے نیورولوجی (WFN) اور چھ دیگر عالمی دماغی انجمنوں نے رواں سال میں منائے جانے والے ’عالمی یوم دماغ‘ کا مرکزی خیال ’’دماغی امراض سے بچاؤ: آگاہی، جلد تشخیص، موثر و بروقت مدد سے ہی ممکن ہے، یہی ہمارے مستقبل کی حفاظت ہے‘‘ قرار دیا ہے۔
پاکستان میں دماغی امراض کے حوالے سے آبادی کی سطح پر قومی سروے موجود نہیں کہ جس کی بناء پر دماغی امراض کے متعلق حتمی اعداد و شمار فراہم کئے جا سکیں۔ پاکستان بھر کے ہسپتالوں میں ہونے والی تحقیقات کے دستیاب اعداد و شمار کی روشنی میں یہ معلوم ہوا ہے کہ صرف فالج سے سالانہ کم و بیش پانچ لاکھ افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں مرگی کی شرح آبادی کا ایک فیصد ہے، اس حساب سے ملک کے طول و عرض میں 25 لاکھ انسان مرگی کے عارضے میں مبتلا ہیں۔ سر درد بھی پاکستان میں ایک عام دماغی عارضہ ہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف مائیگرین (درد شقیقہ) سے متاثرہ ڈھائی کروڑ سے زائد لوگ ہیں۔ دماغی متعدی امراض مثلا گردن توڑ بخار یا سرسام وغیرہ سے بھی سالانہ کروڑوں انسان متاثر ہوتے ہیں۔
ان دماغی عوارض کا تناسب ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان میں بڑھتا ہی جا رہا ہے جبکہ طبی سہولیات و علاج پر اخراجات بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہے۔ دستیاب طبی سہولیات، تشخیصی ٹیسٹ و ادویات کا بوجھ اور اس پر عوام کی اکثریتی معاشی صورتحال، اس بات کی شدید متقاضی ہے کہ حکومتی وسائل قومی سطح پر بیماریوں کے بچاؤ کی تدابیر و آگاہی پر بھی خرچ ہوں، یہ ہی وہ واحد راستہ ہے جس کے نتیجے میں دماغی امراض کے تناسب کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ہر سال 22 جولائی کو عالمی یوم دماغ (World Brain Day) منایا جاتا ہے۔ امسال یہ منایا جانے والا 11 واں عالمی یوم دماغ ہے، سال 2014 میں اس دن کے منانے کا آغاز کیا گیا تھا۔
2024ء کے مرکزی خیال کا مقصد عالمی سطح پر اس پیغام کو عام کرنا ہے کہ دماغ کی صحت کیلئے، دماغی عوارض کو لاحق ہونے سے پہلے حفاظتی اقدامات کئے جائیں تاکہ ان امراض میں حتی الامکان کمی لائی جا سکے۔ اس ضمن میںعالمی فیڈریشن برائے نیورولوجی (WFN) کا کردار بہت اہم ہے، جس کی سرپرستی میں ضروری اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ عالمی ادارہ صحت (WHO) کی فعال شرکت اس سال کی مہم کو مزید تیز کرتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت، مرگی اور دیگر اعصابی عوارض پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ایک مربوط پلان کے تحت، جسے انٹرسیکٹرل گلوبل ایکشن پلان (IGAP) کا نام دیا گیا ہے، عالمی سطح پر دماغی عوارض کے بارے میں ہر سطح پر آگاہی پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تمام قابل ذکر اعصابی عوارض دراصل انسانی زندگی پر عملی طور پر اثر انداز ہوتے ہیں، جس کے باعث روزمرہ زندگی کے امور متاثر ہوتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں پھر معاشی، اقتصادی و سماجی مسائل رونما ہوتے ہیں۔ چنانچہ فالج، درد شقیقہ، الزائمر (یادداشت کی بیماری)، گردن توڑ بخار اور مرگی جیسے عوارض عالمی سطح پر انسانی صحت کو متاثر کرنے کرنے کے ساتھ اقتصادی اور سماجی مسائل کا موجب بھی بنتے ہیں۔
حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ ان امراض کے عوامل کو آگاہی، رسائی و تعلیم کی مربوط کاوشوں کے ذریعے کافی حد تک روکا جا سکتا ہے۔ ان میں خاص طور پر فالج کو 90 فیصد، ڈیمنشیا (یعنی یادداشت کی بیماری) کو 40 فیصد، اور مرگی جیسے امراض کی شرح کو 30 فیصد تک روکا جا سکتا ہے۔ درد شقیقہ (آدھے سر کا درد)، سر درد کی دیگر اقسام اور دماغی متعدی (انفیکشن) امراض کے لیے موثر حفاظتی اقدامات کرنے سے، ان کے بڑھنے کی شرح میں مناسب حد تک کمی لائی جاسکتی ہے۔
میڈیکل سے وابستہ افراد اور باشعور طبقات کو عالمی فیڈریشن برائے نیورولوجی اور عالمی ادارہ صحت کی اس مہم میں کامیابی کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ دماغی امراض سے بچاؤ یعنی روک تھام (prevention) سے مراد صحت مند سرگرمیوں و طرز زندگی کا فروغ ہے تاکہ انسانی عوارض کے تناسب میں کمی لائی جا سکے۔ اس سلسلے میں بیماریوں کی روک تھام کیلئے بحیثیت مجموعی معاشرے سے لے کر انفرادی سطح تک بیماریوں سے بچنے کیلئے مربوط و مسلسل کاوشیں شامل ہیں۔ بیماریوں کے اثرات اور ان سے منسلک خطرے کے عوامل کو کم کرنے کے لیے بنیادی اور ثانوی روک تھام کے تناظر میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔
بنیادی بچاؤ (Primary Prevention)
بنیادی بچاؤ سے مراد یہ ہے کہ بیماریوں کے شروع ہونے سے قبل ہی انہیں روکنے کے امور پر توجہ مرکوز کی جائے۔ بنیادی بچاؤ کی کوششوں سے معاشرے میں بیماریوں سے بچنے کے لیے صحت مند عوامل کی آگاہی پر زور دینا ہوگا۔ اس کے لئے سماجی و اقتصادی عوامل کو ملحوظ رکھتے ہوئے صحت مند سرگرمیوں کو فروغ دینے کے اقدامات کو ہر سطح پر سر انجام دینے کی ضرورت ہو گی۔ اس میں سب سے اہم اقدام تو معاشرے کی اصلاح و صحت مند رہنے کے لیے رویوں کی عملی تبدیلی ہے۔ بچاؤ کے اقدامات کے ساتھ بیماریوں کے نتیجے میں ہونے والے طبی خطرات کے بارے میں معلومات فراہم کرنا، کمیونٹی کی سطح پر بہتری کے اقدامات کو نافذ کرنا، غذائیت اور خوراک کی اضافی پیشکش کرنا، منہ اور دانتوں کی صفائی کو فروغ دینا، نیز بچوں، بڑوں اور بزرگوں کے لیے حفاظتی ٹیکوں جیسی طبی حفاظتی خدمات فراہم کرنا شامل ہے۔
ثانوی بچاؤ (Secondary Prevention)
ثانوی روک تھام، صحت کے مثبت نتائج کو بڑھانے کے لیے بیماری کا قبل از وقت یا جلد پتہ لگانے پر زور دیتی ہے۔ اس میں بیماری کا پتہ لگانے اور پیدائشی خرابی کی روک تھام کے لیے شواہد پر مبنی اسکریننگ پروگرام شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بیماری کے ابتدائی مراحل میں ثابت شدہ مؤثر انسدادی ادویات کے علاج کا انتظام کرنا۔ عالمی یوم دماغ 2024 دماغی صحت کو ترجیح دینے اور اس کے تحفظ کے لیے عالمی کوششوں کے لیے ایک مشترکہ جدوجہد کے طور پر کام کرتا ہے۔ بیداری پھیلا کر، تعاون کو فروغ دے کر، اور احتیاطی تدابیر کی وکالت کر کے، ہم اجتماعی طور پر سب کے لیے ایک صحت مند مستقبل کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔
پانچ اہم نکات:
(1) دماغی صحت اور روک تھام: دماغی عوارض کا جلد پتہ لگانے اور موثر انتظام کے ذریعے ان کے بڑھنے کی شرح میں نمایاں کمی لائی جا سکتی ہے۔ امراض کے حوالے سے ابتدائی تشخیص کے اقدامات معاشرے سے ان بیماریوں کے بوجھ کم کرنے کا باعث اور ان بیماریوں کی خرابیوں کے بوجھ کو نمایاں طور پر کمی کا سبب بن سکتے ہیں۔
(2) آگاہی: دماغی صحت کے بارے میں معاشرے کے تمام طبقات کیلئے بڑے پیمانے پر آسان زبان و انداز کے ذریعے آگاہی نہ صرف قومی بلکہ ایک عالمی ضرورت ہے۔
(3) رسائی: سماجی و اقتصادی حیثیت یا جغرافیائی محل وقوع، دماغی عوارض کی روک تھام کے لیے رکاوٹ نہیں ہونا چاہیے۔
(4) تعاون: صحت کی دیکھ بھال کے پیشہ ور افراد، محققین اور پالیسی ساز، عالمی دماغی و اعصابی بحران سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
(5) تعلیم اور وکالت: دماغی صحت کو ایک بنیادی انسانی حق کے طور پر تسلیم کرنا ہمارے مشن کا مرکزی نکتہ ہے۔
دماغی صحت کا حصول کیسے ممکن ہے؟
وہ کون سے اہم، آسان و بنیادی نکات ہیں کہ جس کو اختیار کرنے سے نہ صرف ہم اپنے معاشرے میں ایک مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں بلکہ دماغی و دیگر عوارض میں نمایاں کمی لائی جا سکتی ہے۔ درج ذیل آسان طریقوں پر عمل کرنے سے عوام بیماریوں سے محفوظ رہنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ بچاؤ ہی دماغی صحت کی کنجی ہے۔ سمجھ، بوجھ اور یادداشت کی کمی کو روکنے اور دماغ کی بہتر صحت کو ترجیح دینے کیلئے ضروری اقدامات لازمی کریں، جن میں:
٭ باقاعدگی سے ورزش
جسمانی ورزش دماغ کیلئے خون کے بہتر بہاؤ کا باعث ہے، جس کے نتیجے میں دماغی خلیے نشوونما پاتے ہیں اور انسان دماغ کی صلاحیت و سمجھ بوجھ میں بہتری لاتے ہیں۔
٭ سماجی طور جڑے رہیں
سماجی طور پر انسان جتنا موثر ہوگا، انسانی دماغ اتنا ہی بہتر کام کرے گا۔ دوست، احباب، عزیز و رشتہ دار جڑے رہیں۔ سماجی تعلق قائم رکھیں۔ یہ جذباتی بہبود اور صحت مند دماغ کیلئے ضروری امر ہے۔
٭ نشہ آور اشیاء سے مکمل پرہیز
کسی بھی قسم کی تمباکو نوشی، ماوا، گٹکا وغیرہ کا استعمال دماغ کے خلیوں کیلئے نقصان دہ ہے، نیز شراب نوشی بھی انسانی سمجھ بوجھ کے مسائل کا سبب ہے، لہٰذا ان اشیاء کو استعمال نہ کرنا دماغی صحت کا باعث ہے۔
٭ تناؤ میں کمی
جسم و دماغ کے آرام کیلئے مختلف طریقوں پر عمل کرنے سے دماغ کو ایک تازگی ملتی ہے۔ ان میں روزمرہ بنیاد پر تھوڑے وقت کو استعمال کر کے گہرے سانس لینا، مراقبہ یا یوگاکرنا شامل ہے۔ اس سے تناؤ میں کمی آئے گی کیونکہ ذہنی تناؤ دماغی صحت کیلئے منفی اثرات مرتب کرتا ہے اور بہت سے عوارض کا باعث بنتا ہے۔
٭ سر کی حفاظت
کسی بھی قسم کی سواری یا کھیل کے دوران اپنے سر کا موثر حفاظتی انتظام ضروری ہے۔ لہذا موٹر سائیکل چلاتے ہوئے ہیلمٹ اور گاڑی چلاتے ہوئے سیٹ بیلٹ لازمی استعمال کریں تاکہ خدانخواستہ حادثہ کی صورت میں دماغی/ سر کی چوٹ سے بچاؤ ممکن ہو سکے۔
٭ پانی کا مناسب استعمال
دن بھر میں (تجویز کے طور پر صبح سے شام 7 بجے تک) پانی یا پانی والی اشیاء کا مناسب مقدار میں استعمال ضروری ہے نیز ایسی دماغی سرگرمیوں کا حصہ بنیں جو خوشی و تازگی کا باعث بنے۔
٭ نیند کو ترجیح دیں
رات کو کم و بیش سات سے نو گھنٹے تک پرسکون نیند لینا ایک صحت مند دماغ کیلئے ضروری ہے۔ روزانہ رات کی معیاری نیند نہ صرف دماغی فاسد مواد کو ختم کرنے کا سبب ہے بلکہ انسانی یادداشت کی بہتری میں بھی معاون ہے۔
٭ متوازن غذاء
دماغی عوارض سے بچنے کیلئے متوازن، معیاری و سادہ غذائی عادات انتہائی ضروری امر ہیں۔ بے وقت کھانا پینا، مرغن و غیر متوازن اشیاء کا استعمال، انسانی جسم بشمول دماغی صحت کیلئے نقصان دہ ہے۔ لہٰذا سادہ اور متوازن اشیاء جن میں موسمی سبزیاں و پھل شامل ہیں استعمال کریں۔ اس کے علاوہ اناج، گوشت، مرغی، مچھلی اور ضروری چکنائی کا محدود استعمال کیا جانا چاہیے۔
(پاکستان اسٹروک سوسائٹی کے صدر، پروفیسر ڈاکٹر عبدالمالک کراچی کے ایک طبی ادارے میں خدمات انجام دے رہے ہیں، وہ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے بھی رکن ہیں۔)
[ad_2]
Source link