[ad_1]
اسلام آباد: نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقے کے عوام کے خلاف اسرائیل کی جاری جنگ کھل کر پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے، تہران میں حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ کے المناک قتل نے کشیدگی کو بڑھا دیا ہے، اس گھنائونے فعل کی مذمت کے لیے الفاظ کافی نہیں، ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو جدہ میں او آئی سی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے غیر معمولی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
سرکاری خبر ایجنسی (اے پی پی) کی رپورٹ کے مطابق نائب وزیر اعظم نے کہا کہ ہم ایک ایسے وقت میں ملاقات کر رہے ہیں جب مشرق وسطیٰ اور اس سے باہر وسیع تر انتشار کا خطرہ زور پکڑ رہا ہے، یہ مشرق وسطیٰ اور مسلم دنیا کی تاریخ کا ایک نازک لمحہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ کوئی غلطی نہ کریں، اگر آج یہ ایران ہے، تو کل یہ ایک اور او آئی سی ملک ہوسکتا ہے جو اسی طرح کی بین الاقوامی دہشت گردی یا اپنی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی کا سامنا کر سکتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم ایران اور فلسطینی عوام کے اسرائیل کے اشتعال انگیز اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کا جواب دینے اور بدلہ لینے کے عزم کو پوری طرح سمجھتے ہیں اور اس طرح کی سنگین کارروائی کا بدلہ لیا جانا چاہیے۔
انہوں نے شرکاءکو بتایا کہ حکومت پاکستان نے 2 اگست کو یوم سوگ منایا، مزید برآں اسی دن پاکستان کی قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر اسماعیل ہانیہ کے قتل اور فلسطینیوں پر گزشتہ نو ماہ سے جاری اسرائیلی مظالم کے خلاف ایک سخت الفاظ میں مذمتی قرارداد بھی منظور کی۔
نائب وزیر اعظم نے کہا کہ مقبوضہ علاقے کی سڑکیں فلسطینیوں کے خون سے سرخ ہوچکی ہیں، اسرائیل اپنے مذموم ایجنڈے اور اپنی قاتلانہ مہم کو روکے بغیر جاری رکھے ہوئے ہے، بھوک کو غزہ میں جنگ کے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اسرائیل انسانیت اور بین الاقوامی قوانین کا مذاق اڑا رہا ہے۔
اس نے جان بوجھ کر شہریوں کے بنیادی ڈھانچے، گھروں، اسکولوں، امدادی قافلوں اور انسانی پناہ گاہوں کو نشانہ بنایا اور تباہ کیا ہے
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی قیادت نےاقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور بین الاقوامی عدالت انصاف کا جنگ بندی کا مطالبہ بارہا رد کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے پہلے سے ہی نازک اور عدم استحکام کا شکار مشرق وسطیٰ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جیسے جیسے مشرق وسطیٰ میں حالات خراب ہو رہے ہیں، ہمارے لوگ، خاص طور پر ہمارے وطن واپس آنے والے نوجوان سوالات پوچھ رہے ہیں اور انہیں او آئی سی سے بہت زیادہ توقعات وابستہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ واضح طور پر صرف مذمت ہی اسرائیل کو روکنے اور جوابدہ ٹھہرانے کے لیے کافی نہیں ہے بلکہ موثر طریقے سے نمٹنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین اور ایران کے ساتھ یکجہتی کا واضح پیغام دیتے ہوئے اور خطے میں کشیدگی اور تشدد کو مزید بڑھنے سے روکنے کے لیے او آئی سی کو ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ علاقے میں مکمل، پائیدار اور غیر مشروط جنگ بندی کی سہولت فراہم کرنی چاہئے۔
ہمیں یہ واضح کر دینا چاہیے کہ اگر اسرائیلی قیادت فوری اور مستقل جنگ بندی کے قانونی طور پر پابند مطالبے کو ناکام بناتی ہے تو او آئی سی اس کے جواب میں بشمول تجارت اور تیل پر پابندیاں عائد کرنے سمیت متعدد اجتماعی اقدامات کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ رفح کراسنگ کا کنٹرول مصر کے حوالے کیا جائے، غزہ تک رسد کے دیگر تمام راستے کھولے جائیں۔
یو این آر ڈبلیو اے سمیت تمام اقوام متحدہ اور بین الاقوامی ایجنسیوں کو غزہ میں مکمل طور پر کام کرنے کی اجازت دی جائے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اقوام متحدہ کے مکمل رکن کے طور پر فلسطین کے داخلے کو تیزی سے یقینی بنانا چاہیے، ہمیں فوری طور پر دو ریاستی حل کے قیام کے لیے سیاسی اور سفارتی عمل شروع کرنا چاہیے اور 1967 سے پہلے کی سرحدوں کے اندر ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا آغاز کرنا چاہیے جس کا دارالحکومت القدس شریف ہو۔
نائب وزیر اعظم نے کہا کہ ہم اپنے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کی حق خود ارادیت کی منصفانہ جدوجہد میں ان کی حمایت میں ثابت قدم رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان یکم جنوری 2025 کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں دو سالہ مدت 2025-2026 کے لیے اپنی نشست سنبھالنے کی تیاری کر رہا ہے، عالمی امن کو آگے بڑھانا ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہوگا جس میں دیرینہ تنازعات خاص طور پر مسئلہ فلسطین اور جموں و کشمیر کا تنازع حل کرنے کے لیے سیاسی اور سفارتی حمایت کو متحرک کرنا شامل ہے۔
[ad_2]
Source link