کیا اس طرح کی اسکیمیں ووٹ کے لیے رشوت دینے جیسی بات نہیں ہے؟ اور فارم بھروا کر ان کے رجسٹریشن کو لے کر کیا کہا جائے؟ یہ ایک طرح سے فائدہ اٹھانے والوں کی نشاندہی بھی ہے۔ اس کے بعد ان میں سے جو ووٹ نہیں دے گا، اسے نتائج بھگتنے پڑیں گے۔ دو دہائیاں پہلے سپریم کورٹ میں اس مسئلے پر ایک مفاد عامہ کی درخواست دائر کی گئی تھی۔ تاہم ایک سبرامنیم بالاجی بنام حکومت تمل ناڈو کے اس معاملے میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ اس طرح کی اسکیم شروع کرنا رشوت خوری نہیں ہے۔ دو سال پہلے اسی مسئلے پر سپریم کورٹ میں ایک اور عوامی پٹیشن دائر کی گئی۔ اس معاملے کی سماعت کے دوران انتخابی کمیشن نے ایک حلف نامہ دے کر کہا کہ مفت سہولیات کے وعدوں کے بارے میں وہ کچھ نہیں کر سکتا۔ ایسا کرنا اس کے دائرہ اختیار کے باہر ہے۔
اس کام میں بھلے ہی تمام جماعتوں کی شراکت داری دکھائی دے رہی ہو لیکن وہ نظام جو عوام کی خواہش اور اس کے مینڈیٹ کو کمتر کرتا ہے، وہ عوام سے حکومت کو خراب کارکردگی کی وجہ سے ہٹانے کا حق بھی چھین لیتا ہے۔ یہ طریقے آخر میں تمام سیاسی جماعتوں کو نقصان پہنچائیں گے۔ آج جو پارٹی اس کا فائدہ اٹھا رہی ہے، وہ بھی کہیں اور اسی وجہ سے نقصان میں رہ سکتی ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ اس پر کوئی سیاسی عمومی اتفاق رائے بنایا جائے۔ حکومتوں کو لوگوں کی بہبود کے لیے اسکیمیں بنانے اور انہیں نافذ کرنے سے نہیں روکا جا سکتا لیکن کم از کم ایسا انتظام تو بنا سکتے ہیں کہ ان اسکیموں کا بیجا انتخابی استعمال نہ ہو۔