[ad_1]
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ القادر ٹرسٹ (190 ملین پاؤنڈ کیس) کا فیصلہ صرف اور صرف پچھلے کیسز کی طرح میرے اوپر دباؤ ڈالنے کے لیے لٹکایا جا رہا ہے، میں مطالبہ کرتا ہوں کہ یہ فیصلہ فوری طور پر جاری کیا جائے کیونکہ جیسے پہلے عدت کیس اور سائفر کیس میں آپ کا منہ کالا ہوا، اب اس کیس بھی وہی ہو گا۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر عمران خان کے آفیشل اکاؤنٹ پر جاری بیان میں کہا گیا کہ عمران خان نے اڈیالہ جیل میں میڈیا اور وکلا سے گفتگو کی جس کے دوران ان کا کہنا تھا کہ میں نے اپنی زندگی میں پاکستان میں نافذ کیے گئے تمام مارشل لا یعنی ایوب خان، یحیٰی خان، ضیا الحق اور مشرف کا مارشل لا دیکھے ہیں۔
پوسٹ کے مطابق سابق وزیراعظم نے کہا کہ یحیٰی خان اور ضیاالحق کا مارشل لا پاکستان کی تاریخ کا بدترین مارشل لا تھا جس میں جمہوریت کو بالکل روند دیا گیا تھا، پرویز مشرف اس حوالے سے قدرے لبرل تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جو کچھ آج ملک میں جمہوریت کے نام پر ہو رہا ہے، اس کا موازنہ صرف اور صرف یحیٰی خان کے دور سے کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مارشل لا میں سب سے پہلے جمہوریت، آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا کا گلا گھونٹا جاتا ہے تاکہ آمر کی غلط کاریوں پر کوئی بھی آواز بلند کرنے والا نہ ہو، آزاد میڈیا چونکہ تنقید کرتا ہے، اس لیے اس کی آواز بند کی جاتی ہے، عدلیہ کیونکہ غلط فیصلوں پر ایکشن لینے کا حق رکھتی ہے، اس لیے اس کے اختیارات بھی سلب کر لیے جاتے ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ آج اس جمہوریت کی آڑ میں نافذ اس مارشل لا میں یہ تمام فسطائی حربے بدرجہ اتم موجود ہیں، یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں پاکستان کی سب سے مقبول اور بڑی پارٹی کے چیئرمین کا نام تک میڈیا پر لینے پر پابندی ہے؟
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ جیسے حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ کے ذریعے واضح ہوا تھا کہ یحیٰی خان نے اپنی طاقت اور اقتدار کی خاطر ملک کے نظام کو تہس نہس کیا، وہی کام آج بھی کیا جا رہا ہے، فارم 47 کی بوگس اور فراڈ حکومت کو بچانے کے لیے تحریک انصاف کو مسلسل کچلا جا رہا ہے اور ملک میں جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی کا جنازہ نکال دیا گیا ہے۔
بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ شہباز شریف صرف ایک کٹھ پتلی اور اردلی ہے، اس سے زیادہ طاقت ور وزیر اعظم تو مشرف دور میں شوکت عزیز تھا کیونکہ کم از کم تب انتخابات میں اس سطح کی دھاندلی نہیں کی گئی تھی جیسی فروری 2024 میں کی گئی، دھاندلی کی پیداوار فارم 47 کے سہارے کھڑا ناجائز لیکن ناتواں ٹولہ دراصل حکومت کے نام پر ایک دھبہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ القادر ٹرسٹ کا فیصلہ صرف اور صرف پچھلے کیسز کی طرح میرے اوپر دباؤ ڈالنے کے لیے لٹکایا جا رہا ہے مگر میں مطالبہ کرتا ہوں کہ یہ فیصلہ فوری طور پر جاری کیا جائے کیونکہ جیسے پہلے عدت کیس اور سائفر کیس میں آپ کا منہ کالا ہوا اب بھی وہی ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ القادر کیس بالکل ایک بوگس کیس ہے جس میں دور دور تک کوئی میرٹ نہیں، میں نے کوئی بلاول ہاؤس نہیں بنوایا بلکہ ایک دور دراز دیہات میں قوم کے بچوں کے مستقبل کی خاطر ایک فلاحی ادارہ قائم کیا جس سے مجھے ایک روپے کا فائدہ نہیں ہوا اور نہ ہونا ہے، القادر ٹرسٹ یونیورسٹی بھی شوکت خانم اور نمل یونیورسٹی کی طرح ایک عوامی مدد سے چلنے والا فلاحی ادارہ ہے۔
عمران خان نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میں واضع طور پہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں نواز شریف اور زرداری کی طرح این آر او نہیں لوں گا۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ بشری بی بی کا کسی سے کوئی رابطہ نہیں ہے، یہ محض پروپیگنڈا ہے، ہماری مذاکراتی کمیٹی ہی ان معاملات کو دیکھ رہی ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ اسلام آباد قتل عام کو 6 ہفتے ہو چکے ہیں، ہمارے گمشدہ افراد کو لے کر حکومت کی طرف سے کوئی پیش رفت نہیں کی گئی، یہ مذاکرات کی کامیابی میں حکومت کی غیر سنجیدگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ پاکستان میں معیشت کا حال بدترین ہے، گروتھ ریٹ صفر ہے، مصنوعی طریقے سے ڈالر کو قابو میں رکھنا کوئی معاشی کامیابی نہیں ہوتی۔
عمران خان نے کہا کہ ملک میں ترقی صرف سرمایہ کاری سے آتی ہے اور سرمایہ کاری کبھی ایسے ملک میں نہیں آتی جہاں قانون کا وجود ہی فوت ہو چکا ہو، عدالتیں آزاد نہ ہوں، دہشت گردی ہو اور جہاں اصل عوامی نمائندگان حکومت کے بجائے جیلوں میں ہوں، ایسا ملک کبھی ترقی کر ہی نہیں پایا۔
یاد رہے کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس پر فیصلہ آج ایک مرتبہ پھر موخر کردیا گیا تھا اور عدالتی عملے نے عمران خان کے وکیل خالد یوسف چوہدری کو آگاہ کیا تھا کہ کیس کا فیصلہ 13 جنوری کو سنایا جائے گا۔
اس سے قبل اس کیس کا فیصلہ 6 جنوری کو سنانے کا اعلان کیا گیا تھا، احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے دلائل سننے کے بعد 18 دسمبر کو سینٹرل جیل اڈیالہ میں فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
کیس کا پس منظر
یاد رہے کہ 190 ملین پاؤنڈز یا القادر ٹرسٹ کیس میں الزام لگایا گیا ہے کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ نے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی جانب سے حکومتِ پاکستان کو بھیجے گئے 50 ارب روپے کو قانونی حیثیت دینے کے عوض بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ سے اربوں روپے اور سینکڑوں کنال مالیت کی اراضی حاصل کی۔
یہ کیس القادر یونیورسٹی کے لیے زمین کے مبینہ طور پر غیر قانونی حصول اور تعمیر سے متعلق ہے جس میں ملک ریاض اور ان کی فیملی کے خلاف منی لانڈرنگ کے کیس میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کے ذریعے 140 ملین پاؤنڈ کی وصولی میں غیر قانونی فائدہ حاصل کیا گیا۔
عمران خان پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے طے پانے والے معاہدے سے متعلق حقائق چھپا کر کابینہ کو گمراہ کیا، رقم (140 ملین پاؤنڈ) تصفیہ کے معاہدے کے تحت موصول ہوئی تھی اور اسے قومی خزانے میں جمع کیا جانا تھا لیکن اسے بحریہ ٹاؤن کراچی کے 450 ارب روپے کے واجبات کی وصولی میں ایڈجسٹ کیا گیا۔
[ad_2]
Source link