[ad_1]
ان دنوں پاکستان میں برین ڈرین کا بہت شور سنائی دے رہا ہے کیوں کہ پاکستان میں تعلیم حاصل کرنے والے ڈاکٹرز اور انجیئرز تیزی سے بیرون ملک ملازمت اختیار کررہے ہیں۔
برین ڈرین کی صورتحال کی وجہ سے مقامی سطح پر پیشہ ور افراد کی خصوصا شعبہ طب میں قلت بڑھ رہی ہے۔ مگر کیا بیرون ملک ملازمت اختیار کرنا پاکستانی ریاست اور مملکت کےلیے بہتر ہے یا نہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب دو طرفہ ہوسکتا ہے۔ مگر آج چند مثالوں سے اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ برین ڈرین پاکستان کےلیے کس قدر اہم ہے۔
دنیا میں ترقی کے عمل کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ایک غیر ترقی یافتہ قوم نے دوسری ترقی یافتہ قوم سے ہنر سیکھا اور پھر اسی ترقی یافتہ قوم کو شکست دے کر انہیں اپنا محکوم بنالیا۔ اس کی بہترین مثال مسلم اسپین ہے، جہاں مسلم حکومت جب قائم ہوئی تو یورپ اپنے تاریک دور سے گزر رہا تھا۔ جہاں پاپائیت، بادشاہت اور جہالت کے گہرے سائے تھے۔ مگر مسلم اسپین سے علم حاصل کرنے کے بعد یورپ میں اس علم کو آگے بڑھایا گیا اور یورپ میں سماجی، سیاسی اور صنعتی انقلاب کی بنیاد رکھی گئی اور یورپ کی ترقی کا سفر شروع ہوا۔
اسی طرح وہ پاکستانی جو کہ اس وقت بیرون ملک جاکر اپنے پیشہ ورانہ سفر کو اگے بڑھا رہے ہیں، وہ مستقبل میں پاکستان میں اسی طرح کی بڑی تبدیلی کا موجب ہوسکتے ہیں اور یہی پاکستانی امریکا اور یورپی ملکوں میں نہ صرف اپنا پیشہ ورانہ مقام بڑھا رہے ہیں بلکہ وہ ان ملکوں اور پاکستان میں فلاحی کاموں میں اور معاشرے کی وسیع تر بہتری کےلیے بھی کام کررہے ہیں۔ ایسے میں سب سے بہترین مثال ڈاکٹر سعید اختر کی ہے جنہوں نے حکومت پنجاب کے ساتھ مل کر پاکستان میں گردے اور جگر کی پیوندکاری کا اسپتال قائم کیا۔ جس کے علاج کےلیے پاکستانیوں کو بھارت، چین اور دیگر ملکوں جانا پڑتا تھا۔ یہ علاج ایک عام پاکستان جو کہ اس مہنگی سرجری کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے کو اپنے ہی ملک میں فراہم کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ تمام تر سیاسی اور عدالتی مشکلات کے بعد انہوں نے اس ادارے کو ایک فعال اور مستحکم اسپتال میں منتقل کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔
کینسر ایک موذی مرض ہے۔ جس کا علاج ویسا ہی تکلیف دہ اور مہنگا ہے جیسا کہ 1970 کی دہائی میں تھا۔ مگر امریکا میں تحقیق کرنے والی ڈاکٹر عذرا رضا نے اس مرض کے علاج کےلیے ایک مکمل نیا تحقیقاتی نظریہ پیش کیا۔ ڈاکٹر عذرا رضا نے اپنی طب کی تعلیم کراچی میں حاصل کی جس کے بعد اعلیٰ تعلیم کےلیے امریکا گئیں اور وہاں کینسر کی تحقیق سے ایسا وابستہ ہوئیں کہ انہوں نے امریکیوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ انہوں نے امریکا میں کینسر کے مریضوں پر ایک طویل صبر آزما اور پرمغز تحقیق کی اور انہوں نے ’’احتیاط علاج سے بہتر‘‘ کے اصول کو اپناتے ہوئے کینسر کو پیدا ہونے سے قبل علاج کا طریقہ کار دریافت کرنے پر توجہ دیتے ہوئے ایک کتاب دی فرسٹ سیل کے نام سے لکھی ہے، جس کے بعد وہ امریکا میں فی الوقت کینسر کے پیدا ہونے سے قبل علاج کی ادویات کی تیاری پر تحقیق کررہی ہیں جس کےلیے وہ 2ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا ہدف حاصل کرنے کےلیے کوشاں ہیں۔
امریکا میں عمومی طور پر علاج بہت مہنگا ہوتا ہے۔ اگر میڈیکل انشورنس نہ ہو تو علاج کرانے میں ساری جمع پونجی خرچ اور گھر بار بک جاتا ہے مگر علاج پھر بھی مکمل نہیں ہوتا۔ عارضہ قلب جو کہ ایک وبا کی صورت اختیار کرگیا ہے اس کا علاج امریکا میں انتہائی مہنگا ہے۔ اس مہنگے علاج کو سستا بنانے کےلیے ایک پاکستانی امریکی ڈاکٹر انوش احمد نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے امریکا میں ایک فلاحی ادارہ قائم کیا تاکہ وہاں موجود غریب، پسماندہ اور تعلیم سے محروم افراد کی مدد کی جاسکے۔ انہوں نے ان افراد کو روزمرہ کی ضروریات کی فراہمی کے علاوہ نادار طلبا کو تعلیمی وظائف بھی فراہم کیے ہیں۔ انہوں کورونا کے دوران امریکا میں سماجی سطح پر صحت کے شعبے میں سرمایہ کاری کی۔ انہوں نے امریکا میں عارضہ قلب کے سستے علاج کےلیے ہارٹ اینڈ ہلتھ کلینکس کا جال بچھایا۔ اور یہ طبی سہولت پسماندہ، غریب اور مہاجرین والے علاقوں میں بھی فراہم کی۔ اور اب وہ یہی تجربہ پاکستان کےلیے بھی استعمال کرنے کےلیے کوشاں ہیں۔ ڈاکٹر انوش احمد نے شعبہ طب کے علاوہ امریکا میڈیکل اسکولز، کلینکس، اسپتالوں، ریئل اسٹیٹ جیسے شعبہ جات میں بھی اپنا لوہا منوایا ہے۔
ان تین مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے اگر پاکستانی طبی شعبے کے ماہرین کی امریکا میں خدمات پر نظر ڈالی جائے تو وہاں پر ایسوسی ایشن آف فریشنز آف پاکستانی ڈینسٹ ایک اہم کردار ادا کررہی ہے۔ یہ ایک نہایت فعال تنیظم ہے جو ہر سال اپنا کنونشن منعقد کرتی ہے۔ اس تنظیم کے 15 ہزار ممبران ہیں، جو طبی تعلیم، تحقیق، صحت میں بہتری، ادویہ سازی میں جدت جیسے شعبوں میں کام کررہے ہیں۔ اس تنظیم نے اجتماعی طور پر پاکستان کو ہر مشکل میں مالی اور صحت کے شعبے میں معاونت فراہم کی ہے۔ اپنا صحت کے نام سے پاکستان کے ویہی علاقوں میں بنیادی صحت فراہم کرنے کے منصوبے پر کام کررہی ہے۔
پاکستان سے بیرون ملک جانے والے پاکستانی اگر خود کو مغربی معاشروں کی رنگینیوں میں گم کرنے کے بجائے وہاں موجود تعلیم اور آگے بڑھنے کے مواقع سے فائدہ اٹھائیں تو نہ صرف ان معاشروں بلکہ پاکستان کےلیے بھی کار آمد فرد بن سکتے ہیں۔ ہمیں برین ڈرین کو منفی انداز میں لینے کے بجائے اس کو مثبت طور پر دیکھنا ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
[ad_2]
Source link