طلبہ تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ آئین ملک کے مفادات کے خلاف ہے۔ اس پر بی این پی اور حکومت نے اعتراض کیا ہے اور سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس مطالبے سے ملک میں مزید سیاسی تقسیم پیدا ہو سکتی ہے
بنگلہ دیش میں احتجاج کی فائل تصویر / تصویر یو این آئی
بنگلہ دیش میں ’اینٹی ڈسکرمنیشن اسٹوڈنٹس موومنٹ‘ نے 1972 کے آئین کو ختم کرنے کی تجویز پیش کی ہے، جسے تنظیم نے ’مُجیبسٹ‘ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ آئین ہندوستان کی ’جارحیت‘ کو ہوا دینے کا سبب بنا ہے۔ تنظیم نے آئین میں تبدیلی کے لیے ایک نیا منشور تیار کیا ہے جسے 31 دسمبر کو جاری کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ان کے اس اقدام پر بی این پی نے اعتراض کیا ہے اور اس تجویز کو آئین کی تاریخ کو نظرانداز کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ پارٹی نے کہا کہ اگر آئین میں کوئی خامی ہے تو اسے درست کیا جا سکتا ہے لیکن اسے ختم کرنا فاشزم کے مترادف ہوگا۔
دوسری جانب، بنگلہ دیش کی موجودہ عبوری حکومت نے اس تجویز سے اپنے آپ کو الگ کر لیا ہے اور کہا کہ یہ ایک ذاتی اقدام ہے جس کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بیگم خالدہ ضیا کی جماعت ’عوامی لیگ‘ نے ابھی تک اس معاملے پر کوئی ردعمل نہیں دیا ہے، تاہم یہ معاملہ بنگلہ دیش میں سیاسی تقسیم کو مزید بڑھا سکتا ہے۔ مقامی سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس تحریک کو اگر عوامی حمایت ملتی ہے تو یہ ملک کی سیاسی صورت حال میں اہم تبدیلی لا سکتی ہے، خاص طور پر جب کہ ملک پہلے ہی سیاسی بحران کا شکار ہے۔
اس تجویز کا مقصد 1972 کے آئین کو ختم کرنا اور ایک نیا دستور نافذ کرنا ہے جس کے تحت ملک کی سیاسی اور اقتصادی صورت حال میں تبدیلی لائی جا سکے۔ اس آئین کی تشکیل بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد کی گئی تھی اور اس کا تاریخی اہمیت ہے۔ اس لیے اس آئین میں تبدیلی کی تجویز کو تاریخی ورثے کی توہین کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
بنگلہ دیش میں سیاسی حالات کی بنا پر یہ تجویز ایک نیا تنازعہ پیدا کر سکتی ہے، کیونکہ یہاں پہلے ہی سیاسی دھڑوں کے درمیان شدید اختلافات ہیں۔ بی این پی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ اس آئین کے تحت ہی ملک کی آزادی کا تحفظ کیا گیا اور اس میں تبدیلی کی کوششیں ملک کی سالمیت کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں۔
یہ صورتحال اس بات کا اشارہ دیتی ہے کہ آئندہ چند مہینوں میں بنگلہ دیش کی سیاست میں مزید تناؤ اور سیاسی ہلچل دیکھنے کو مل سکتی ہے، خاص طور پر اگر یہ آئینی تبدیلی کی تحریک عوامی سطح پر پھیلتی ہے اور اس کے ساتھ عوامی احتجاج اور مظاہرے بھی ہو سکتے ہیں۔ اس معاملے پر ملک کے مختلف علاقوں میں سیاسی اثرات اور ردعمل دیکھنے کو مل سکتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔