شام میں الاخوان المسلمون کی تحریک کا باقاعدہ آغاز مصر کے بہت بعد ہوا۔
1945 میں ڈاکٹر شیخ مصطفی السباعی یرحمہ اللہ نے بنیاد رکھی۔ انہوں نے امام حسن البناء ( شہادت 1948ء) سے ملاقاتیں کیں۔
ڈاکٹر السباعی “مراقب عام” کہلاتے تھے۔
1948 ء کے انتخابات میں اِخوان نے 13 نشستیں جیتیں۔شیخ السباعی ، شیخ عبد الفتاح ابو غدہ ، شیخ زہیر الشاویش ، عمر الخطیب ، عصام العطار ، ڈاکٹر نبیل الصبحی وغیرہ پارلیمنٹ میں پہنچے۔
1963 میں اخوان پر پابندی عائد کی گئی ۔
1966 میں نُصیری /علَـوی کمانڈر ان چیف بنا کر مسلط کیا گیا۔
مرکزی کونسل میں 80 فی صد سنیوں کی نمائیندگی صرف 6 نام نہاد سنی کررہے تھے۔
تین فی صد اسمعیلیوں کے دو نمائیندے تھے۔
تین فی صد درزیوں کے دو نمائیندے تھے۔
پانچ فی صد علویوں / نصیریوں کے دو نمائیندے تھے۔ سربراہ بھی ان کا تھا۔
پھر 1970ء میں خبیث قصاب و جلاد حافظ الاسد نصیری مسلط کیا گیا۔
پھر تیس سال بعد 2000ء میں اس کا جلاد بیٹا بشار الاسد مسلط ہوگیا۔
باپ بیٹے جعلی انتخابات کراتے رہے۔
روس ان کی مدد کرتا رہا۔
الاخوان کی تنظیم حلب ، حماة ، حمص اور دمشق میں بہت زیادہ منظم ہوتی گئی۔
1979 میں حافظ الاسد ( یہ کافر نام کا حافظ تھا ) نے اخوان کا قتل عام کیا۔
1982 میں حماة میں اخوان کا قتل عام ہوا۔
2000 میں بشار الاسد نے باپ کی جگہ لی۔
2013 میں الاخوان المسلمون کے سربراہ شیخ ریاض الشقة نے اخوان کے قتل میں ایران کے ملوث ہونے کا انکشاف کیا۔ ایران اور لبنان کا حسن نصر اللہ ، بشار الاسد کے ساتھ مل کر اخوان پر ظلم ڈھاتے رہے۔
دوسری طرف 2020 کے بعد ایران نے حماس کے اخوانیوں کی مدد شروع کی۔
یہ عجیب تضاد تھا۔
شام میں ظلم اور غزہ میں حمایت۔
شامی اخوانیوں نے عالم اسلام کو بہت بڑے علماء دیے ہیں۔ اردو میں ان کی تحقیقات کا ترجمہ بہت کم ہوا ہے۔
ڈاکٹر مصطفی السباعی نے جامعہ اظہر سے اسلامی قانون میں ڈاکٹریٹ کی۔
فقیہ اور محدث کے ساتھ بڑے مصنف تھے۔
1915 میں ولادت ہوئی۔
1930 میں مصر کے اخوانیوں سے تعارف ہوا۔
1945 سے 1961 تک پورے 16 سال شام کے اخوانیوں کی قیادت کی۔
1956 میں قید کیے گئے۔
السنة و مکانتھا فی التشریع اور التکافل الاجتماعی وغیرہ ان کی بہت سی مشہور کتابیں ہیں۔
ان کے نصف جسم پر فالج کا حملہ ہوا اور
1964 میں صرف 50 سال کی عمر میں انتقال کیا۔
السنة و مکانتھا کا اردو ترجمہ ہوا۔ بھارت میں مولانا علی میاں نے ان کی دیگر کتابیں شائع کیں۔
“السنہ و مکانتھا” پرویزیوں اور منکرین حدیث کے لیے ” سنت کی آئینی حیثیت” کی طرح بہت مفید ہے۔ مولانا۔غلام احمد حریری مرحوم نے شاندار ترجمہ کیا۔
شیخ عبد الفتاح ابو غدہ بھی شامی اخوانیوں کے بہت بڑے عالم تھے۔ 1997 ء میں وفات پائی۔ حلب ان کا شہر تھا۔ یہ بھی عظیم محدث اور فقیہ ہیں۔ جامع دمشق میں پروفیسر رہے۔ 1966 ء میں قید کیے گئے ، پھر لبنان جلا وطن کیے گئے۔
سعودی جامعات میں بھی پڑھایا۔
شام کی اخوانی قیادت اہل علم کے ہاتھوں میں رہی ۔ یہ تحریک کو قران و سنت سے قریب رکھنے کی ضمانت ہوتی ہے۔ قیادت سے علماء کی دوری تحریک کو سانحات سے دوچار کرسکتی ہے۔
اج 8 دسمبر 2024 ء کے بعد دیکھنا ہے کہ اخوان نئے جغرافیائی حالات میں کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں ؟
خلیل الرحمٰن چشتی
اسلام آباد
8دسمبر 2024ء