قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے منعقدہ اجلاس میں رکن کمیٹی زرتاج گل نے تحریری طور سوالات کمیٹی چئیرمین کو جمع کروائے، ان کا کہنا تھا کہ بتایا جائے کہ 26نومبر کو پرامن مظاہرین پر گولی چلانے کا حکم کس نے دیا، کتنے لوگ شہید، زخمی اور کتنے قید ہیں، صحافیوں کو کیوں گرفتار کیا جارہا ہے اور اسلام آباد میں صرف پشتونوں کو کیوں گرفتار کیا جا رہا ہے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس پیر کے روز وزارت داخلہ کی عمارت میں رکن قومی اسمبلی راجہ خرم نواز کی زیر صدارت منعقد ہوا، اجلاس میں زرتاج گل کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے رکن کمیٹی طارق فضل چوہدری نے کہا کہ یہ جھوٹ اور پراپیگنڈہ ہے کہ اسلام آباد میں صرف پشتونوں کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے ہمارے اپنے لوگ بھی گرفتار ہیں جو کہ پشتون نہیں ہیں یا کے پی کے سے نہیں ہیں۔
جب قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس شروع ہوا تو ڈائریکٹر جنرل فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ڈی جی ایف آئی اے) کی عدم حاضری پر اراکین کمیٹی شدید برہم ہوئے، راجہ خرم نواز نے کہا کہ ایف آئی اے کے ڈائریکٹرز لوگوں کو بلیک میل کرتے ہیں ایف آئی اے والوں کو کوئی منسٹر کوئی سیکرٹری پوچھنے والا نہیں ہے۔
رکن کمیٹی چوہدری نصیر نے کہا کہ ایف آئی اے سب انسپکٹرز بندے اٹھاتے ہیں ان کی جانب سے ریٹ 15 لاکھ سے شروع کیا جاتا ہے سوائے چور بازاری اور بلیک میلنگ کے ایف آئی اے کا کیا کردار ہے۔
حنیف عباسی نے کہا کہ ہم نے ڈی جی ایف آئی اے کو بتایا کہ شہریوں کو بلیک میل کیا جا رہا ہے ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگی، نبیل گبول نے کہا اس طرح کرنا ہوتا ہے تو ایف آئی اے کو بلایا ہی نہ کریں۔
چئیرمین کمیٹی راجہ خرم نواز بولے ایف آئی اے افسران کا ذاتی کیس ہو تو ضمانت والوں کو بھی اٹھا لیا جاتا ہے جو بچہ اغوا ہوا اس کے ماں باپ پر کیا گزر رہی ہوگی یہ مسئلہ حل کر کے اسی ہفتے کمیٹی کو آگاہ کیا جائے، مسنگ پرسنز کو ہر صورت برآمد کروایا جائے۔
اجلاس میں ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے نے قانون کے مطابق کارروائی کی یقین دہانی کروائی، کمیٹی نے کوسٹ گارڈ ترمیمی بل اتفاق رائے سے منظور کر لیا جبکہ کرمنل لاء ترمیمی بل آئندہ اجلاس تک موخر کر دیا گیا۔