عدالت میں مرکزی حکومت کی طرف سے پیش ایڈیشنل سالیسٹر جنرل نے کہا کہ جامع مسجد کو 1951 میں محفوظ یادگار کی شکل میں نامزد کیا گیا تھا، ایسے میں وہاں مدرسہ چلانا ناجائز ہے۔
کرناٹک کی مشہور شری رنگا پٹن جامع مسجد میں جاری مدرسہ کو لے کر تنازعہ پیدا ہو گیا ہے۔ ایک مفاد عامہ عرضی کرناٹک ہائی کورٹ میں داخل کی گئی ہے جس میں اس تاریخی جامع مسجد کو محفوظ یادگار ظاہر کرتے ہوئے اس میں مدرسہ چلائے جانے کو غلط بتایا گیا ہے۔ اس عرضی میں مسجد احاطہ کو خالی کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ اس عرضی پر مرکزی حکومت نے بھی کرناٹک ہائی کورٹ میں اپیل کی ہے کہ وہ کرناٹک حکومت کو مدرسہ خالی کرانے کی ہدایت دے۔
دراصل ابھشیک گوڑا نامی ایک شخص نے کرناٹک ہائی کورٹ میں یہ مفاد عامہ عرضی داخل کی ہے۔ اس عرضی میں ابھشیک نے شری رنگا پٹن جامع مسجد میں ناجائز طریقے سے مدرسہ چلائے جانے کا الزام عائد کیا اور عدالت سے اسے بند کرانے کا مطالبہ کیا۔ یہ عرضی کرناتک ہائی کورٹ کے چیف جسٹس این وی انجاریا کی صدارت والی ڈویژنل بنچ کے سامنے سماعت کے لیے پہنچی۔ سماعت کے دوران مرکزی حکومت کی طرف سے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل کے. اروند کامتھ عدالت میں پیش ہوئے۔ کامتھ نے دلیل دی کہ جامع مسجد کو 1951 میں محفوظ یادگار کی شکل میں نامزد کیا گیا تھا۔ ایسے میں وہاں مدرسہ چلانا ناجائز ہے۔ کامتھ نے ہائی کورٹ سے گزارش کی کہ وہ کرناٹک حکومت اور مانڈیا ضلع انتظامیہ کو مدرسہ خالی کرانے کی ہدایت دے۔
اس معاملے میں وقف بورڈ نے اپنا سخت اعتراض ظاہر کیا ہے۔ اس نے مفاد عامہ عرضی کی مخالفت کرتے ہوئے بتایا کہ مسجد وقف بورڈ کی ملکیت ہے اور وہاں مدرسہ چلایا جائے یا نہیں، اس پر بورڈ کا اختیار ہے۔ ہائی کورٹ میں معاملے کی سماعت کے دوران ریاستی حکومت اور وقف بورڈ کے وکیل نے اپنی بات رکھی۔ کرناٹک حکومت اور وقف بورڈ کے وکیلوں کا کہنا ہے کہ 1963 میں وقف بورڈ کو اس ملکیت کے مالکانہ حق کی منظوری دی گئی تھی۔ ایسے میں وہاں مدرسہ کا انتظام و انصرام پوری طرح سے جائز ہے۔ دونوں فریقین کی باتیں سننے کے بعد بنچ نے معاملے کی آئندہ سماعت کے لیے 20 نومبر کی تاریخ مقرر کر دی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔