این سی پی لیڈر نواب ملک نے کہا کہ جب 1992 میں ہنگامہ عروج پر تھا، اس وقت بابری مسجد گرائی گئی، پورے ملک میں فسادات ہوئے، اتر پردیش بھی اس فساد میں جھلس رہا تھا۔
مہاراشٹر اسمبلی انتخاب میں مہایوتی کی پارٹیاں ایک دوسرے کے خلاف ہی کھڑی دکھائی دے رہی ہیں۔ مہایوتی میں شامل این سی پی (اجیت پوار گروپ) کے لیڈر اور مان خرد شیواجی نگر سے امیدوار نواب ملک لگاتار بی جے پی کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔ انھوں نے ایک تازہ بیان دیا ہے جس میں کہا ہے کہ ’بنٹو گے تو کٹو گے‘ جیسے بیان انتہائی قابل مذمت ہیں۔ اس طرح کی بیان بازی سے ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔
نواب ملک کا کہنا ہے کہ اس طرح کی سیاست کے سبب ہی اتر پردیش میں بی جے پی کو بے حد نقصان ہوا ہے۔ ایودھیا میں رام مندر بننے کے بعد بھی بی جے پی کو یوپی میں شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس لیے مذہب کی بنیاد پر سیاست کرنا طویل مدت تک نہیں چل سکتا۔ ہمیں پورا بھروسہ ہے کہ ملک میں سیاست ملک کے بنیادی ایشوز پر ہونی چاہیے۔ ہم چاہتے ہیں کہ کوئی بھی ہندو-مسلم کے نام پر ملک کو تقسیم نہ کرے۔ این سی پی لیڈر نے پارلیمانی انتخاب میں ایودھیا میں بی جے پی کو ہوئی شکست کا حوالہ بھی دیا اور کہا کہ مذہب کے نام پر سیاست کو عوام بھی ناپسند کر رہے ہیں۔
این سی پی لیڈر نواب ملک نے 1992 کے دور کو بھی یاد کیا اور کہا کہ اس وقت ہنگامہ عروج پر تھا۔ بابری مسجد گرائی گئی، پورے ملک میں فسادات ہوئے۔ اتر پردیش بھی اس فساد میں جھلس رہا تھا۔ ایسے میں کلیان سنگھ جی کی حکومت برخاست کر دی گئی، لیکن 4 ماہ کے اندر انتخاب ہوا اور بی جے پی کو شکست ہوئی۔ سالوں بعد عدالت کے حکم سے مندر تعمیر ہوا۔ مندر تعمیر کے بعد بھی بی جے پی اتر پردیش میں بری طرح سے انتخاب ہار گئی۔ اس سے بی جے پی کو سمجھنا چاہیے کہ مذہب کی بنیاد پر سیاست زیادہ دن نہیں چلتی ہے۔