ہمیں اپنی تاریخ کو یاد رکھنا ہوگا اور سامراجی طاقتوں کی اصلیت کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔ حال ہی میں، میں نے ایک وڈیو کلپ دیکھی جس میں ہندوستان کے ایک نمایندے وجے سنگھ نے گلاسگو میں ماحولیاتی کانفرنس کے دوران یورپی اقوام کو آئینہ دکھایا۔ ان کی تقریر نے میرے دل کو جھنجھوڑ دیا اور سوچنے پر مجبورکیا کہ ہمیں اپنی تاریخ اپنے دکھوں اور اپنی عظمت کو دنیا کے سامنے دوبارہ بیان کرنا ہوگا۔ وجے سنگھ نے اپنی تقریر میں ان مظالم کا ذکرکیا جو برطانوی سامراج نے برصغیر اور دیگر ممالک پر ڈھائے اور یہ بات بالکل درست ہے کہ آج کے ترقی یافتہ یورپی شہر دراصل سامراجی لوٹ مارکی یادگار ہیں۔
برصغیر کبھی دنیا کا معاشی مرکز تھا۔ پانچ ہزار سال قبل دریائے سندھ کی تہذیب سے لے کر مغل دور تک یہ زمین اپنی زرخیزی ثقافت اور خوشحالی کے لیے مشہور تھی۔ دریائے سندھ کی تہذیب نے انسانی ترقی کے کئی نئے باب رقم کیے۔ یہ وہ دور تھا جب موہنجو داڑو اور ہڑپہ جیسے شہر دنیا کی اولین شہری منصوبہ بندی کے نمونے پیش کر رہے تھے۔ یہاں کے لوگ صفائی پسند تھے، زراعت میں مہارت رکھتے تھے اور تجارت کے ذریعے دور درازکے علاقوں سے جڑے ہوئے تھے۔ یہ تہذیب نہ صرف مادی ترقی کا مظہر تھی بلکہ سماجی عدل اور امن کا بھی گہوارہ تھی۔
برصغیر کی یہ عظمت یونہی قائم نہیں رہی بلکہ مختلف ادوار میں مختلف سلطنتوں نے اس خطے کو مزید مضبوط بنایا۔ موریہ سلطنت نے یہاں ایک مضبوط سیاسی نظام قائم کیا۔ گپتا سلطنت نے سائنسی ترقی کو فروغ دیا اور بعد میں مغلوں نے اس زمین کو اپنے تعمیراتی کارناموں، ثقافت سے مالامال کیا۔ مغل حکمران غیر ملکی تھے لیکن انھوں نے برصغیرکو اپنا وطن بنایا۔ ان کی پالیسیوں نے نہ صرف اقتصادی ترقی کو ممکن بنایا بلکہ یہاں کے عوام کے ساتھ ایک ایسا تعلق قائم کیا جس کی بنیاد محبت اور احترام پر تھی۔
یہ سب کچھ اس وقت بدل گیا جب برطانوی سامراج نے اس خطے پر قبضہ کیا۔ 1757 میں پلاسی کی جنگ کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے برصغیر پر اپنا تسلط قائم کرنا شروع کیا۔ ان کی حکمرانی کا مقصد صرف اور صرف لوٹ مار تھا۔ برطانوی مورخین کے مطابق انھوں نے برصغیر سے تقریباً 45 کھرب ڈالرکی دولت لوٹی۔ یہ صرف دولت نہیں تھی، بلکہ یہ وہ خون تھا جو ہمارے اجداد نے زمین پر بہایا تھا وہ محنت تھی جو کسانوں نے کی تھی اور وہ ہنر تھا جو دستکاروں نے اپنی صنعتوں میں استعمال کیا تھا۔
برطانوی لوٹ مار کے نتیجے میں بنگال کا قحط سامراج کے ظلم کی سب سے گھناؤنی مثال ہے۔ 1943 میں بنگال کے قحط کے دوران لاکھوں لوگ بھوک سے مرگئے لیکن چرچل کی حکومت نے برصغیرکا اناج برطانیہ بھیج دیا۔ چرچل کے الفاظ تھے کہ ’’ برصغیرکی عوام خرگوشوں کی طرح زیادہ بچے پیدا کرتی ہے اور ان کا مرنا کوئی بڑی بات نہیں۔‘‘ یہ بے حسی لاکھوں زندگیوں کو نگل گئی اور ثابت کیا کہ سامراج کے لیے انسانی جانوں کی کوئی قدر نہیں تھی۔
برطانوی سامراج نے نہ صرف برصغیرکی دولت لوٹی بلکہ اس کی روح کو بھی مجروح کیا۔ انھوں نے یہاں کی صنعتوں کو تباہ کیا تاکہ اپنی مصنوعات کو فروغ دے سکیں۔ برصغیر کی مشہور دستکاری صنعت جو دنیا بھر میں مشہور تھی برطانوی مشینری کے مقابلے میں برباد کردی گئی۔ اسی طرح زراعت کو بھی نوآبادیاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ کسانوں کو نقد آور فصلیں اگانے پر مجبورکیا گیا جس کے نتیجے میں خوراک کی قلت پیدا ہوئی اور قحط کے حالات مزید خراب ہوئے۔
یہ سب کچھ وجے سنگھ نے اپنی تقریر میں واضح کیا۔ انھوں نے کہا کہ گلاسگو اور لندن جیسے شہر دراصل برصغیر، افریقہ اور ایشیا کی مظلومیت کی یادگار ہیں۔ آج یورپی اقوام ترقی یافتہ ہیں لیکن ان کی بنیاد غریب قوموں کے خون اور پسینے پر رکھی گئی ہے۔ آج یہ ممالک ماحولیاتی تبدیلیوں پر بات کرتے ہیں، لیکن وہ یہ نہیں دیکھتے کہ گلوبل ساؤتھ آج بھی ان کی لوٹ مار کے نتائج بھگت رہا ہے۔
یہ سوال اہم ہے کہ جب تک ماضی کی ناانصافیوں کا ازالہ نہیں ہوگا تب تک ماحولیاتی اہداف پر بات کرنا ایک مذاق کے سوا کچھ نہیں۔ برطانوی سامراج اور دیگر یورپی طاقتوں کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ان کی ترقی کے پیچھے ان قوموں کی قربانیاں ہیں، جنھیں انھوں نے غلام بنایا اور لوٹا۔ ہمارے لیے آج کا سبق یہ ہے کہ ہمیں اپنی تاریخ کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ برصغیرکبھی دنیا کا معاشی اور ثقافتی مرکز تھا۔ ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ مغلوں نے یہاں آکر اس زمین کو اپنایا جب کہ برطانوی سامراج نے اسے لوٹ کر تباہ کیا۔
برصغیرکی عظمت کو دوبارہ زندہ کرنا ہماری ذمے داری ہے۔ ہمیں اپنی نئی نسلوں کو یہ بتانا ہوگا کہ ہم صرف مظلوم نہیں بلکہ ایک عظیم تہذیب کے وارث ہیں۔ ہمیں یہ باور کروانا ہوگا کہ ہم نے دنیا کو بہت کچھ دیا ہے، اور آج بھی ہم میں وہ صلاحیت موجود ہے کہ ہم اپنی کھوئی ہوئی عظمت کو دوبارہ حاصل کر سکیں۔
یہ مضمون ان تمام سامراجی طاقتوں کے لیے ایک آئینہ ہے جو برصغیرکو لوٹ کر اپنے لیے جنت بناتے رہے۔ آج جب ہم گلاسگو یا لندن جیسے شہروں کی چمک دمک دیکھتے ہیں، تو ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ان کی بنیاد برصغیر، افریقہ اور دیگر نوآبادیاتی علاقوں کی غربت پر رکھی گئی ہے۔ یہ غربت ہماری تقدیر نہیں بلکہ سامراجی طاقتوں کا تحفہ ہے۔
ہمارے لیے آج کا راستہ یہ ہے کہ ہم اپنی تاریخ کو یاد رکھیں اپنے وسائل کا بہتر استعمال کریں اور اپنی نئی نسلوں کو یہ سکھائیں کہ وہ اپنی تقدیر خود بدل سکتے ہیں۔ ہماری تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ہم صرف مظلوم نہیں بلکہ ایک عظیم تہذیب کے وارث ہیں اور یہ ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم اپنے مستقبل کو بہتر بنائیں۔ یہ راستہ مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔ ہمیں اپنی دولت، ثقافت اور وقار واپس حاصل کرنا ہوگا تاکہ دنیا کے سامنے یہ ثابت کرسکیں کہ ہندوستان اور برصغیر آج بھی اپنی عظمت کو دوبارہ حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔