[ad_1]
سنبھل میں جامع مسجد کے سروے کے دوران جو خون بہا، وہ فرقہ وارانہ تشدد بھڑکانے کی سوچی سمجھی ہوئی پالیسی کا حصہ ہے، سوچنا ہوگا کہ اس تشدد کے لیے کون کون ذمہ دار ہیں۔
سنبھل میں حال ہی میں 5 مسلمانوں کے قتل کی وجہ سے لوگوں میں زبردست غصہ ہے۔ اس کے لیے ذمہ دار کون ہے، اس بات پر کئی طرف انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اس کے لیے کچھ ہی دن پہلے سبکدوش ہوئے چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ چندرچوڑ کا کردار بہت اہم ہے، لیکن سب سے پہلے ان کی بات کرتے ہیں جو سیدھے طور پر ذمہ دار ہیں۔ یعنی آج اقتدار میں بیٹھے لوگ اور وہ ادارے جن کا کام قانون کا راج بنائے رکھنے، عوام کی سیکورٹی یقینی بنانے اور سبھی شہریوں کی زندگی محفوظ بنانے کا ہے۔
سنبھل انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ متاثرین کی موت پولیس کی گولیوں سے نہیں ہوئی۔ لیکن یہ دعویٰ سوالات کے گھیرے میں ہے کیونکہ سرکل افسر نے مشتعل مسلمانوں پر گولی چلانے کی بات کا اعتراف کیا ہے۔ سب سے پہلے تو الزام پولیس ایڈمنسٹریشن پر آتا ہے جنھوں نے اشتعال نعرہ لگاتی بھیڑ کو شاہی مسجد تک جانے دیا۔ ان کے رخ نے پہلے سے ہی کشیدہ حالات کو مزید سنگین بنا دیا۔ لوگوں کے غصے کو کم کرنے کی جگہ انھوں نے آگ میں گھی ڈال دیا۔
مسجد ’سروے‘ کے فیصلہ سے متعلق بھی تجزیہ ہونا چاہیے۔ مقامی سول جج نے مسجد کمیٹی کی بات سنے بغیر سروے کا حکم دے دیا جو مقرر طریقۂ کار کی واضح خلاف ورزی ہے۔ جس جلدبازی میں عدالتی کارروائی ہوئی، اس سے وکلا اور ماہرین قانون بھی حیران رہ گئے۔ سروے صرف 7 دنوں میں پورا ہونا تھا اور حکم جاری ہونے کے چند گھنٹوں کے اندر ہی سینئر افسران نے سیکورٹی اہلکاروں کے ساتھ کام شروع بھی کر دیا۔ ایسے معاملوں میں اس طرح کی جلدبازی نہیں دیکھی جاتی اور اس سے ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگوں کو مشتعل کرنے کی ایک کوشش تھی۔
اس کے بعد 24 نومبر کو سروے کا کام جس طرح آگے بڑھایا گیا، وہ مزید پریشان کرنے والا ہے۔ سروے کے ساتھ لوگوں کی بھیڑ بھی تھی (یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کیونکہ ایک دن پہلے ہی ریاست میں ہوئے ضمنی انتخاب کے نتائج آئے تھے)۔ سامنے آئی ویڈیو سے پتہ چلتا ہے کہ پولیس افسر بھیڑ کو منتشر کرنے کی کوشش کرنے کی جگہ ان کی مدد ہی کر رہے تھے۔ ظاہر ہے، یہ ایڈمنسٹریٹو کارروائی غیر جانبدار نہیں بلکہ مسجد پر اسٹیٹ اسپانسرڈ حملہ جیسی تھی۔
بڑا سوال یہ بھی ہے کہ سروے کا مطالبہ کرنے والے عرضی دہندہ کو سروے ٹیم کے ساتھ جانے کی اجازت کیوں دی گئی؟ صاف ہے کہ عدالت کی دلچسپی مقررہ طریقۂ کار پر عمل کرنے میں نہیں تھی اور اس نے بے حد جانبداری کے ساتھ کام کیا۔ یہ بھی اتنا ہی واضح ہے کہ انتظامیہ نے کشیدگی کو بڑھانے میں کردار نبھایا۔ اس نے مقامی لوگوں کو بھروسے میں لینے کی کوئی کوشش نہیں کی اور پھر جب مسلمانوں نے یہ سمجھ کر پتھر بازی کی کہ ان کی مسجد پر حملہ کیا جا رہا ہے، تو انھیں خاموش کرانے کے لیے پوری طاقت کا استعمال کیا۔
پولیس کی کارروائی میں 5 مسلم مارے گئے۔ اس طرح کی رپورٹ ہے کہ ان کے گھروں میں توڑ پھوڑ کی گئی، خواتین کو ان کے گھروں سے گھسیٹ کر نکالا گیا اور پولیس نے ان کی شادی تقاریب میں رخنہ ڈالا۔ یہ قانون کے مطابق کارروائی نہیں بلکہ ایسی سزا تھی جو تشدد کو فروغ دے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کی منشا ’مسلمانوں کو سبق سکھانے‘ کی تھی۔
ضلع مجسٹریٹ، پولیس سپرنٹنڈنٹ اور سرکل افسر کے بیانات کوئی دلاسہ نہیں دلاتے۔ ان میں سے کسی نے بھی جان و مال کے نقصان پر افسوس نہیں ظاہر کیا۔ متاثرین کے لیے ان کی زبان ایسی تھی جیسے وہ انسان ہی نہ ہوں اور افسران نے انھیں سیکورٹی کے حقدار شہری کی جگہ دشمن تصور کیا۔
بلاشبہ پہلی ذمہ داری زمینی سطح کے ایڈمنسٹریٹو عملہ کی بنتی ہے، لیکن سنبھل کے متاثرین کے خون نے سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی وراثت کو بھی داغدار کر دیا ہے۔ ان کے کاموں نے ایسا قانونی ماحول بنایا جس نے سنبھل کو ممکن بنایا۔
یہ چندرچوڑ ہی تھے جنھوں نے نام نہاد ’تجسّس کے علم انصاف‘ کو جائز بنایا جس سے ملک بھر میں مساجد کے سروے کا راستہ کھل گیا۔ وارانسی میں گیانواپی مسجد کا معاملہ اس کی ایک اہم مثال ہے۔ ہندوؤں نے دعویٰ کیا تھا کہ انھیں یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ ایک مندر تھا، ’مسجد کے طرز کی جانچ‘ کرنے کی ضرورت ہے۔ باوجود اس کے کہ ’پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991‘، جو واضح طور سے مذہبی مقامات کی 15 اگست 1947 کی حالت کو بدلنے پر روک لگاتا ہے، چندرچوڑ نے گیانواپی مسجد کے سروے کی اجازت دے دی۔
پلیسز آف ورشپ ایکٹ خاص طور پر ایسے ہی فرقہ وارانہ تشدد کو روکنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ بی جے پی کی ’رام جنم بھومی مہم‘ سے مطلع قانون ساز یہ یقینی کرنا چاہتے تھے کہ کسی بھی مذہبی مقام کو تنازعہ کا موضوع نہ بنایا جائے۔ سپریم کورٹ نے بھی ایودھیا معاملے پر فیصلہ سناتے وقت اس ایکٹ کی اہمیت سے متعلق محض نمائشی باتیں کیں۔ چندرچوڑ ان 5 ججوں میں تھے جنھوں نے یہ افسوسناک فیصلہ سنایا اور مانا جاتا ہے کہ انھوں نے ہی ایسے فیصلے کی اسکرپٹ لکھی۔ کوئی حیرانی نہیں کہ انھوں نے یہ دلیل دیتے ہوئے کہ ڈھانچہ کی ’حقیقی نوعیت‘ کے بارے میں جاننا 1991 کے ایکٹ کی خلاف ورزی نہیں، گیانواپی سروے کی اجازت دے کر اس ایکٹ کو پھر سے نظر انداز کر دیا۔ یہ ایک ایسی سپاٹ تشریح تھی جو بے حد خطرناک تھی۔
جیسا کہ اندازہ تھا، سروے نے مزید دعووں کو ہوا دے دی۔ ہندوؤں نے اعلان کیا کہ انھیں گیانواپی مسجد کے وضو خانہ میں شیولنگ ملا ہے، جس کے بعد چندرچوڑ نے اسے سیل کرنے کا حکم دے دیا۔ اس نے مسجد کی نوعیت کو بدل دیا، کیونکہ چندرچوڑ کے فیصلے سے اس کا ایک حصہ مسلموں کے لیے بند ہو گیا۔ اس سے ترغیب حاصل کر ذیلی عدالت نے بعد میں مسجد کے دوسرے حصے میں پوجا کی بھی اجازت دے دی۔ اس طرح جو معاملہ ایک سروے کی شکل میں شروع ہوا، وہ مسجد کا کردار بگاڑ کر 1991 کے ایکٹ کا جذبہ طاق پر رکھنے والا ثابت ہوا۔
چندرچوڑ نے جو مثال قائم کی، اس نے ہندوتوا طاقتوں کو متھرا سے لے کر سنبھل اور یہاں تک کہ اجمیر شریف تک ملک بھر میں ایسے معاملے درج کرنے کے لیے حوصلہ بڑھایا ہے۔ عدالتیں اب مستقل طور سے مساجد کے سروے کا حکم دے رہی ہیں اور یہ ایسے سیلاب میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے جس نے ہندوستان کے سیکولر ڈھانچہ کے بہہ جانے کا خطرہ پیدا کر دیا ہے۔
چندرچوڑ کے فیصلوں نے پلیسز آف ورشپ ایکٹ کو ایک بے جان سے لفظ میں بدل کر رکھ دیا ہے۔ انھیں تاریخ میں ’انصاف کے جنگجو‘ کی شکل میں نہیں بلکہ ایک ایسے قانونی اصول کو سامنے لانے والے شخص کے طور پر یاد کیا جائے گا جس نے ہندوستان کے سیکولر تانے بانے کو کمزور کر دیا۔ بلاشبہ ان کا دماغی کرتب ان کے فیصلوں کو تکنیکی جواز کے چادر میں لپیٹنے میں کامیاب رہا ہو، لیکن ان میں اخلاقیات نہیں۔ گیانواپی پر آئے فیصلے کے بعد اس طرح کے معاملوں کے سیلاب نے دکھایا ہے کہ ان کا ’تجسّس کا علم انصاف‘ ایک اکیڈمک تجربہ بھر نہیں بلکہ ان لوگوں کے ہاتھوں میں ایک اوزار ہے جو ہندوستان کی کثرت پسندی والی وراثت کو مٹا دینا چاہتے ہیں۔
سنبھل میں پھیلا خون اس وراثت کا حصہ ہے۔ یہ چندرچوڑ اور ان کے نقش قدم پر چلنے والوں کو کریدتا رہے گا جب تک کہ وہ اپنے کاموں کے ممکنہ نتائج کو سمجھ کر آئین کی سالمیت کو بحال کرنے والا قدم نہیں اٹھاتے۔ ہندوستان اپنے ججوں، حاکموں اور لیڈروں سے اس سے کہیں بہتر سلوک کا حقدار ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
[ad_2]
Source link