ان سبھی التزامات میں سب سے عجیب ہے خواتین کو شامل کرنا، کیونکہ 2013 کے ایکٹ میں پہلے سے ہی اس سلسلے میں التزام ہے، اور سبھی وقف بورڈ میں 2 خاتون اراکین بھی ہیں۔ واضح ہے، اقلیتی امور کے وزیر (کرن رجیجو) نے 2013 کے ایکٹ کو نہیں پڑھا ہے۔
ایک سیکولر ملک میں کسی بھی شعبہ میں کسی بھی مذہب کے منتظم کی تقرری کی جا سکتی ہے۔ مجھے ذاتی طور پر اس سے کوئی دقت نہیں ہے، لیکن ملک بھر کی ریاستوں میں ہندو بندوبستی بورڈ، مندر ٹرسٹ وغیرہ کے کام کو کنٹرول کرنے والے قوانین میں واضح طور سے تذکرہ کیا گیا ہے کہ صرف ہندو ہی گورننگ بورڈ یا ٹرسٹ کا رکن ہو سکتا ہے۔ جب ایسا ہے تو وقف بورڈ کا کام دیکھنے کے لیے الگ پیمانہ کیوں استعمال کیا جا رہا ہے؟
اس کے علاوہ وقف یا ہندو بندوبستی بورڈ ایک خاص مذہب کی مذہبی سرگرمیوں سے منسلک ہوتے ہیں۔ ایک الگ مذہب کا شخص دوسرے مذہب کے رسوم و رواج، روایات اور مذہبی اعمال کو بھلا کس طرح سمجھے گا؟ غیر مسلموں کی تقرری سے وقف بورڈ کے کام میں کوئی بہتری نہیں ہوگی۔ (مجوزہ قانون) ایک طرح سے یہ بتاتا ہے کہ حکومت کو مسلمانوں پر بھروسہ نہیں۔