[ad_1]
نکھارنا یہ چمن ہے اگر تو ایک رہو
۱۵ اگست کا دن ہم بھارت والوں کے لیے بڑا خوشی کا دن ہے کیونکہ اسی دن ہمیں انگریزوں کے چنگل سے آزادی ملی تھی۔ یہ خوبصورت و عظیم جمہوری ملک ہمیں ہزاروں جانثاروں اور شہیدوں کے جان، مال اور اولاد قربان کرنے پر ملا ہے۔ یہ وہی ملک ہے جسے ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی اور دیگر مذاہب کے لوگوں نے مل کر آزاد کرایا اور ہمیں اپنا وارث بناکر چلے گئے۔ اب دیش کی آبیاری و بقا کی ذمداری ہمارے کاندھوں پر ہے کہ ہم اسے سینچيں اور سنواريں۔ مگرسوال اس بات کا ہے کہ آخر آزادی کے 73 سال بعد بھی دیش اس موڑ پر آچکا ہے كہ لوگ ہمارے اس وطن عزیز پر انگلیاں اٹھارہے ہیں اور طرح طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔
افسوس اس بات کا ہے کہ ہمیں آزادی تو سالوں پہلے مل گئی لیکن ہم ابھی بھی مکمل طور پر آزاد نہ ہو سکے۔ ہاں ہم قید ہیں نفرتوں میں، ہم قید ہیں آپسی تنازع میں، ہم قید ہیں جذباتوں اور ذہنی دباؤ میں، ہم قید ہیں عصبیت میں، ہم قید ہیں خانہ جنگی میں، ہم قید ہیں جہالت کے اندھیروں میں ہاں ہم قید ہیں نيتاؤں کے جال میں۔ میں پوچھنا چاہتاہوں دیش کے ان تمام ٹھیکے داروں سے کہ آپ نے دیش میں کتنی یونیورسٹیا ں بنائیں؟ کتنے اسپتال بنائے؟کتنے بے روزگاروں کو نوکریاں دیں؟ کتنے کسانوں کو آرام و سکون بخشا؟کتنے گاؤں اور دیہاتوں میں بجلیا ں پہنچائیں؟ کتنی سڑکوں کی مرمت کرائیں؟ کتنے مجرموں کو سلاخوں کے پیچھے ڈالا؟ غربت اور بھک مری کا کہاں تک خاتمہ کیا؟کرپشن، بدعنوانی اور عصمت ریزی پر کتنا قابو پایا؟ اقلیتی طبقوں کے خون سے حولی کھیلنے والوں پر آپ نے اب تک کیوں کاروائی نہیں كى؟ عورتوں اور لڑکیوں کی عزت سرعام نیلام کرکے انہیں موت کے گھاٹ اتارنے والے کیوں ابھی بھی سماج میں بے خوف و خطر زندگی گزار رہے ہیں؟ فضاء میں نفرت اور اشتعال انگیز بیان دینے والے آج بھی کیوں دیش کے رکھوالے بنیں بیٹھے ہیں؟
ہم مکمل طور پر اس وقت آزاد ہوں گے جب صحیح و غلط کو پرکھنا سیکھیں۔ ہم اس وقت آزاد ہونگے جب ہم نفرت، تشدت، بدعنوانی چھوڑ کر محبت کو بانٹنا شروع کر دیں گے۔ہمیں آزادی اس وقت ملے گی جب جہالت کے اندھیروں سے نکل كر تعلیم کو فروغ دیں گے۔ ہم آزاد اس وقت ہوں گے جب دیش کے غریب، لاچا ر اور مجبور کا قدم قدم پر ساتھ دیں اور اور وہ ہمارے شانہ بہ شانہ ہو کر چلیں۔ سب سے بڑی بات یہ کہ دوسروں کے بہکاوے میں نہ آکر اپنے دل سے کسی چیز کو اچھا یا برا مانیں تب جاکر ہم ایک مکمل آزاد ملک میں سانس لے سکتے ہیں۔تاریخ گواہ ہے جس ملک میں خانہ جنگی شروع ہوتی ہے تو اسے باطل طاقتیں خوب ہوا دیتی ہیں پھر اس ملک کا مستقبل تباہی و بربادی کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ یاد رکھو آج ہمارے ملک کو گردن کٹانے والوں کی نہیں گردن اونچی کر کے چلنے والوں کی ضرورت ہے، جو تعلیم، تہذیب و تمدن، ثقافت اور ہنر کے اعتبار سے لیس ہوں۔ آج ہمارے دیش کو علمی ہتھیار کی ضرورت ہے جس سے ہم دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کو جواب دے سکیں (جب پڑھیگا انڈیا تو آگے بڑھیگا انڈیا)۔
آج میں تمام ہندوستانیوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ وطن کے نام پر ایک ہوجاؤ، خانہ جنگی چھوڑ دو، کسی کے دھرم کو غلط مت بولو، اتحاد کا دامن تھام لو ایک ہندوستانی بن کے رہو، پھر دیکھنا تمہاری شہرت ساری دنیا میں پھیل جائے گی اور ہمارا ملک پیار و محبت کا چمن بن جائے گا۔ میں چاہتا ہوں کے ان اشعار کو ہم اپنی رگ رگ میں بسا لیں:
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا
دلوں میں حب وطن ہے اگر تو ایک رہو
نکھارنا یہ چمن ہے اگر تو ایک رہو
[ad_2]
Source link