پہلی تعلیمی پالیسی جو 1968 میں پیش کی گئی، سے اب تک گزشتہ نصف صدی میں ہندوستان اور دنیا بہت بدل گئے ہیں۔ سائنس اور ٹکنالوجی کے کرشموں کے بعد اب چوتھا صنعتی انقلاب دستک دے رہا ہے۔ تیز رفتار انٹرنیٹ، مصنوعی ذہانت، virtual reality اور جنینیات کی انجینئرنگ نے کیا دیہی کیا شہری، زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے۔ آزاد معیشت اور ای کامرس نے تجارت کی ساخت کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ وطنِ عزیز میں مذہبی منافرت، سماجی عدم توازن جیسے مسائل شدید تر ہوتے جارہے ہیں۔ غرض کہ رفتارِ زمانہ سے اٹھنے والے غبار سے نت نئے چیلینجیز جنم لے رہے ہیں۔
تیزی سے تبدیل ہوتی اس دنیا میں اپنی تہذیبی شناخت اور بنیادی اور جمہوری اقدار کی پاس داری کرتے ہوئے ترقی کی دَوڑ میں آگے نکلنا ہندوستان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے آگے بڑھنے کے لیے ہر پچیس تیس برس میں ملک کے تعلیمی نظام میں ضروری تبدیلیاں ناگزیر ہوتی ہیں۔ یہ عمل تعلیمی پالیسی میں تبدیلی کے ذریعے انجام پاتا ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی آئندہ تین چار دہائیوں کے لیے ترقی کی سَمت اور رفتار طے کرتی ہے، ضروری اہداف اور نشانے متعین کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم کی ہر سطح اور ہر شعبے کی ترجیحات کا تعین کرتی ہے۔
پالیسی کی روشنی میں اور اس میں فراہم کردہ رہنما اصولوں کی پابندی کرتے ہوئے آئندہ برسوں میں تعلیمی ادارے قائم کیے جاتے ہیں، پہلے سے قائم شدہ اداروں کو کنٹرول کیا جاتا ہے، نئے کورسیز اور پورٹل جاری کیے جاتے ہیں، نصاب متعین ہوتے ہیں اور نصابی کتب کی تدوین عمل میں آتی ہے، اساتذہ کے تقرر کا معیار طے ہوتا ہے، تربیتی ادارے تشکیل پاتے ہیں، اداروں کی درجہ بندی کے اصول و ضوابط طے ہوتے ہیں۔ ان کی تفصیل قومی تعلیمی پالیسی نہیں طے کرتی بلکہ وہ ایسے رہنمایانہ خطوط فراہم کرتی ہے کہ یہ تمام عمل ایک منضبط، مربوط اور طے شدہ سمت و رفتار کے ساتھ آزادنہ طور پر انجام پا سکیں۔
تعلیمی پالیسی ایکٹ ہوتی ہے نہ قانونی بِل جسے پارلیمینٹ کی منظوری درکار ہو۔ لیکن پالیسی میں مذکور ایسی شِق جس پر پہلے سے کوئی ایکٹ یا قانون موجود ہو، میں ترمیم کے لیے پارلیمنٹ سے رجوع لازم ہوتا ہے۔ ریاستیں پالیسی کی صد فی صد مکمل پیروی کے لیے پابند نہیں ہوتیں۔ بالخصوص ان شقوں کے متعلق جو پہلے سے وفاقی حکومت کی زیرِ نگرانی ہوں۔
★ پالیسی کا سفر
1947 کے نوخیز آزاد ہندوستان کے چیلنجز یقیناً نہایت شدید تھے چنانچہ ایک ہمہ گیر اور توانا قومی تعلیمی پالیسی کی اشد ضرورت تھی۔ چنانچہ فوری طور پر یونیورسٹی ایجوکیشن کمیشن (1948)، اسکول ایجوکیشن کمیشن (1952)، پھر یونیورسٹی گرانٹس کمیشن اور آخر میں کوٹھاری کمیشن (1965) تشکیل پائے۔ ڈاکٹر کوٹھاری کمیشن نے نہایت عرق ریزی سے تعلیم کے حوالے سے سارے مُلک کی صورتِ حال اور ضروریات کا تفصیلی جائزہ لیا اور اپنی رپورٹ پیش کی۔ ان کی سفارشات کی روشنی میں اندرا گاندھی کی حکومت نے 1968 میں آزاد ہندوستان کے لیے پہلی قومی تعلیمی پالیسی اختیار کی۔
قابلِ ذکر ہے کہ دُور اندیش وزیراعظم اور نباضِ دَوراں وزیرِ تعلیم کی کوششوں سے پالیسی کے نفاذ سے پہلے ہی IIT اور NCERT کا قیام عمل میں آ چکا تھا۔ یہ وہ ادارے ہیں جنھیں جدید ہندوستان کے معمار ادارے کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ پیش رفت پنڈت نہرو اور مولانا آزاد کی دُوربینی اور دانش مندی کا نتیجہ تھی جس کا مقصد بالخصوص سائنسی میدان میں ہندوستان کو خود انحصار بنانا تھا۔ یہاں یہ بات عرض کرنی دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ تعلیمی پالیسی 2020 کو میڈیا نے اِس انداز سے پیش کیا گویا ہندوستان میں خود انحصاری (آتم نِربَھرتا) کا تصور اور تعلیمی پالیسی پہلی مرتبہ پیش کیے جارہے ہیں۔ ہماری پہلی تعلیمی پالیسی نے سب سے پہلے 6% بجٹ تجویز کیا۔ سہ لسانی فارمولہ بھی اسی پالیسی کی دین ہے۔
★ دوسری پالیسی:
تیس سال گزرنے کے بعد وزیرِ اعظم راجیو گاندھی نے 1986 میں دوسری قومی تعلیمی پالیسی پیش کی۔ طفل مرکوز تعلیم، دیہی یونیورسٹی اور اوپن یونیورسٹی اس پالیسی کی نمایاں پیش رفت تھیں۔ اس پالیسی نے بھی 6% بجٹ کے اختصاص پر زور دیا۔ 1992 میں پالیسی میں خاص طور سے تکنیکی اور پروفیشنل ایجوکیشن کے حوالے سے نمایاں ترمیم عمل میں آئی۔ تیسری تعلیمی پالیسی کے آنے تک UPA کی دو مسلسل حکومتوں نے بالخصوص وزیرِ انسانی وسائل جناب کپل سبل کے ماتحت راشٹریہ شکشا ابھیان، مادھیمک شکشا ابھیان، اُچیہ شکشا ابھیان، نیشنل curriculum فریم ورک NCF اور حقِ تعلیم کے قانون RTE جیسے بڑے اقدامات کیے۔ جنھوں نے تعلیم کی توسیع اور معیار بندی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ یہ اقدامات ہندوستانی تعلیمی نظام میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
★ گزشتہ چار سال
جدید قومی تعلیمی پالیسی جسے 2016 میں پیش ہو کر جاری ہونا تھا چار سال تاخیر سے خاص رنگ و روپ کے ساتھ 2020 میں جلوہ گر ہوئی ہے۔ حالاں کہ اکتوبر 2015 میں وزیر اعظم شری نریندر مودی کے ایما پر اس وقت کے سابق کابینہ سیکریٹری TSR سبرمنین صاحب کی سربراہی میں نئی تعلیمی پالیسی کی تشکیل کے لیے کمیٹی کو ذمےداری سونپی گئی تھی۔ کمیٹی نے مئی 2016 میں اپنی رپورٹ اور سفارشات اس وقت کی وزیرِ انسانی وسائل مسز اسمرتی ایرانی کو بروقت پیش بھی کر دی تھیں۔ وجوہات کا علم نہیں ہے، لیکن اس کمیٹی کی سفارشات کو منظرِ عام پر نہیں لایا گیا۔ سبرمنین صاحب کے اصرار کے باوجود جب اس عمل میں تاخیر ہوئی تو انھوں نے خود اس کے کچھ حصوں کو تلخیص کے ساتھ نشر کیا۔ قیاس کیا جاتا ہے وہ سفارشات نئی حکومت کے مخصوص مزاج سے ہم آہنگ نہیں تھی۔
بہرحال ایک نئی کمیٹی جون 2017 میں ڈاکٹر کستوری رنگن کی سربراہی میں تشکیل دی گئی۔ اس کمیٹی نے مئی 2019 کو پالیسی کا نیا ڈرافٹ پیش کیا۔ اور 484 صفحات پر مبنی پالیسی کو 70 صفحات کی تلخیص کے ساتھ منظرِ عام پر لایا گیا۔ اس پر تمام stakeholders سے تجاویز اور تبصرے منگوائے گئے۔ تقریباً ڈھائی لاکھ تجاویز اور تبصرے موصول ہوئے۔ اس بات کا علم نہیں ہے کہ اس مشق کی روشنی میں ڈرافٹ میں کیا تبدیلیاں کی گئیں کیوں کہ اس وقت ہمارے سامنے وہ 484 صفحات والا ترمیم شدہ یا فائنل ڈرافٹ موجود نہیں ہے۔ وجوہات کا علم نہیں لیکن صرف 66 صفحات کی تلخیص کو نشر کیا گیا ہے۔ اور تلخیص کی بنیاد پر ملک کے طول و عرض میں تبصروں اور مباحث کا سلسلہ جاری ہے۔ ظاہر ہے کہ تقریباً پانسو صفحات کے سامنے صرف اٹھویں حصے کو لے کر کسی حتمی نتیجے پر پہنچنا ممکن ہے اور نہ یہ کوشش مناسب ہے۔
★ پالیسی 2020 کے نمایاں پہلو:
بہر حال قوم کے سامنے جدید قومی تعلیمی پالیسی آ چکی ہے۔ یہاں اس کے چند نمایاں پہلوؤں کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔
* 2030 تک صد فی صد داخلے کا ہدف
* بچہ اسکولی تعلیم مکمل کرکے نکلے تو کم از کم ایک ہنر skill حاصل کر چکا ہو
* بورڈ امتحان کے بوجھ کو کم کرنا
* پنجم جماعت تک مادری زبان میں تعلیم کی راہ ہموار کرنا
* پری پرائمری تعلیم کو تعلیمی نظام کے دائرے میں لانا
* خواندگی اور بنیادی شماریاتی صلاحیت کے لیے قومی مشن کا آغاز
* ابتدائی تا ثانوی تعلیم کا 5+3+3+4 فارمولہ
* آرٹس، سائنس اور کامرس کی امتیازی تقسیم کو ختم کرنا
* تعلیم اور اس کے ایڈمنسٹریشن کی ہر سطح پر ٹیکنالوجی اختیار کرنا
* اعلیٰ تعلیم کی سطح پر ایک سال مکمل کرنے پر سرٹیفکیٹ، دو سال مکمل کرنے پر ڈپلومہ اور تین یا چار سال کی تکمیل پر ڈگری تفویض کرنا۔
* کسی بھی مرحلے پر ڈگری پروگرام میں داخل اور خارج ہونے کا اختیار دینا
* 2023 تک اساتذہ کو نئے نظام کے لیے تربیت یافتہ کر دینا
* اسکولی تعلیم، اساتذہ کی تعلیم اور تعلیمِ بالغاں کے لیے نئے curriculum framework تشکیل دینا
* سہ لسانی فارمولہ
* تعلیم پر 6% بجٹ
قارئینِ کرام! نئی قومی تعلیمی پالیسی کے چھیاسٹھ صفحات میں بہت کچھ نیا ہے، تقاضائے وقت کے مطابق ہے اور مناسب ہے۔ لیکن بہت کچھ ایسا بھی ہے جس نے اندیشوں کو جنم دیا ہے۔ ان پر فوری غور و خوض اور بحث ہونی چاہیے۔ برادرانِ وطن کے ساتھ مل کر ایک لائحہ عمل تیار کرنے اور اصلاحات کی کوششوں کی بھی ضرورت ہے۔ اساتذہ اور پرنسپل حضرات سے پالیسی کے نفاذ پر مشورے طلب کیے گئے ہیں۔ اس کے لیے innovateindia.mygov.in اس ویب سائٹ پر اساتذہ اور پرنسپلز مشورے درج کر سکتے ہیں۔
ضیاء الرّحمٰن انصاری
پرنسپل، رئیس ہائی اسکول اینڈ جونیر کالج، بھیونڈی
شائع شدہ: روزنامہ انقلاب،
سنڈے میگزین، 30 اگست 2020