پس پردہ – اتحاد ملت کا قرآنی تصور
تم سب اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام لواور باہم مختلف نہ ہوجاؤ
باہمی اتحاد واتفاق کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ، لیکن موجودہ عہد میں جس انداز میں اس موضوع پر بات کی جاتی ہے ، وہ اسلامی تعلیمات سے کہیں زیادہ ’’جذباتی شاعری‘‘ سے تعبیر کیے جانے لائق ہے ۔ دوسرے لفظوںمیں یوں کہہ لیں کہ ہم نہ توعہد حاضر کے تناظر میں تصور اتحاد واتفاق کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں، بلکہ اس حوالےبھی ہمارا جو سرمایہ علم وآگہی ہے ، اس کے تانے بانے انقلابی شاعروں، علاقائی کہاوتوں اور فرضی کہانیوں سے ملتے ہیں ۔
چونکہ بات نہایت سنجیدہ اور نازک ہے، اس لیے آگے بڑھنے سے پہلے موضوع کی وضاحت بہت ضروری ہے ۔تصور کیجیے کہ کسی علاقے میں مسلمانوں کی آبادی ایک لاکھ ہے ، جب کہ غیروں کی آبادی پچاس ہزار ہے ۔ اب سمجھا یہ جاتاہے کہ اگر ایک لاکھ مسلمان متحد ہوجائیں تو پچاس ہزار کی غیر مسلم آبادی کسی طرح ہمیں نقصانات سے دوچار نہیں کرسکتی۔ بظاہر اس نتیجے میں بہت دم ہے ، لیکن سن لیا جائے کہ متذکرہ مثال سوسال پہلے تک عمومی اعتبار سے درست رہی ہوگی، تاہم اب حالات یکسر بدل گئے ہیں ۔ اب جنگیں عددی قوت کی بنیاد پر نہیں ، بلکہ خود کار اسلحوں کی بنیاد پر لڑی جاتی ہیں ۔ متذکرہ مثال میں آپ کٹوتی کرتے ہوئے یہاں تک کہہ سکتے ہیں کہ پانچ دس ہزار آبادی بھی ترقی یافتہ اسلحے سے مزین ہو،تو ایک لاکھ کو بہ آسانی زیر کرسکتی ہے ۔ یہاں سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ صر ف ’’کم ‘‘ کی بنیاد پر تفوق حاصل نہیں کیا جاسکتا ، بلکہ ’’کیف‘‘ کی قیمت پہلے بھی تھی اور آج بھی مسلم ہے ۔
اب آئیے موضوع سخن کی طرف پلٹتے ہیں۔ ہم عام طورپر اسلام کے نام سے پہچانے جانے والے افراد کے باہمی اتحاد واتفاق کی اہمیت پر زور دیتے ہیں اور اسے قرآن کا مطلوب ومقصود بھی بتاتے ہیں ،جب کہ حقیقت صد فی صد کسی طور درست نہیں ہے ۔ بہت ممکن ہے کہ میری رائے سے آپ اختلاف کریں، لیکن لمحے بھر کے لیے غور توکریں کہ قرآن میں یہ نہیں ہے کہ تم سب باہم متحد ہوجاؤ، بلکہ اتحاد کا ایک مشترک پیمانہ بھی مقرر کردیا گیاہے ۔ میں عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ قرآن مقدس ہمیں یہ حکم نہیں دیتا کہ تم ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہوجاؤ، بلکہ قرآن کریم یہ حکم دیتاہے کہ تم سب ’’اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام لواور باہم مختلف نہ ہوجاؤ‘‘ ( سورہ آل عمران ،آیت:۱۰۳) ۔ یعنی یہاں پر ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر متحد ہونے کی بات نہیں کہی جارہی ہے ، بلکہ ہر شخص سے یہ کہاجارہا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام لے ۔ اب ظاہرہے کہ جب ہر شخص اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی کےساتھ تھام لے ، توباہمی طورپر سب متحد ہوگئےاور یہی قرآ ن کا مطلوب ومقصود ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ یہاں ’’اتحادفی العمل ‘‘ کی تعلیم دی جارہی ،جس کے نتیجے میں لازمی طورپر ’’اتحاد فی الجسم ‘‘ ہوہی جائے گا۔
اندازہ لگائیے کہ قرآن مقدس نے کس قدر حکمت ودانشمندی کے ساتھ فلسفہ اتحاد ویگانگت کی بنیاد کی طرف اشارہ کردیا،لیکن عہد حاضر میں ہم ’اتحاد واتفاق‘ کی اہمیت سمجھانے پرساری طاقت صرف کردیتے ہیں، لیکن جو اس کا بنیادی محور ہے، اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے۔ خیال رہے کہ یہاں ’’اللہ کی رسی ‘‘ کی تعبیر اس کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے کہ ’’تم سب اللہ تعالیٰ کے بن کر رہو‘‘ یعنی تمہارے شب وروز اطاعت خداوندی اور اطاعت رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں گزریں ۔ظاہرہے کہ جب زندگی ایسی ہوجائے ، توپھر مسلمان روحانی اعتبار سے بھی مضبوط ہوجائے گااور مادی اعتبار سے بھی ۔ اور اس طرح جب ہر مسلمان انفرادی طورپر کامیاب ہوجائے ، توکون کہہ سکتاہے کہ اجتماعی سطح پر کسی معاملے میں بھی ملت اسلامیہ پیچھے رہ جائے گی؟
جان کی امان ملے توایک بات عرض کروں ۔ مجھے ایسا محسوس ہوتاہے کہ ہم اتحاد واتفاق کے متذکرہ بنیادی ستون سے پہلو تہی صرف اس لیے کرتے ہیں کہ اس کا نشانہ ہماری ذات کی طرف ہوجاتاہے، جب کہ ہمارے اپنے من چاہے مفہوم کا نشانہ دوسروں کی طرف ہوجاتاہے ۔ اس طرح جی بھر کے دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں ۔ کبھی علمائے دین کے درمیان نظریاتی اختلافات پر گفتگوکرتے ہیں، کبھی سیاسی عمائدین کی باہمی چپلقس ہماری ذاتی محفلوں میں زیر بحث آجاتی ہے اور کبھی عام مسلمانوں کی بے حسی پر نوحہ کناں ہوجاتے ہیں ۔ اس طرح ذلت ورسوائی اور پس ماندگی وزبوں حالی کا سارا بخار اپنے علاوہ سارے مسلمانوں کے سر ڈال کر خاموش ہوجاتے ہیں ۔ اے کاش ہم فلسفہ اتحاد واتفاق کے حوالے سے طے شدہ قرآنی بنیاد پر توجہ دیتے ،تو ہم خود اپنے گریبان میں منہ ڈال کر اپنے شب وروز کا جائزہ لیتے ۔ کیا عجب کہ یہ انداز فکرہمارے اندر ایک انقلابی تبدیلی کا پیش خیمہ بن جاتا۔
جو لوگ عددی اتحادو اتفاق کے نہ ہونے کا شکوہ کرتے ہیں ، انھیں چاہیے کہ تاریخ کا ایک سیاہ صفحہ اپنے پیش نگاہ رکھ لیں۔ ۱۹۶۷ء میں اسرائیل کے خلاف مصر، شام اور اردن تین عرب ممالک صف آرا ہوئے۔ آبادیاتی گوشوارے کے مطابق اُس وقت اسرائیل کی آبادی ۲۷۴۵۰۰۰ تھی، جب کہ مصر ۳۲۰۵۶۵۰۵، شام ۵۷۴۰۷۱۰، اور اردن ۱۳۷۸۹۹۸ لوگوں پر مشتمل تھا۔ یعنی اجمالی طورپر آپ کہہ سکتے ہیں کہ ستائیس لاکھ افراد پر مشتمل ملک کے خلاف چار کروڑ افراد پر مشتمل ممالک لڑ رہے تھے ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ابھی عرب ممالک حملہ کرنے ہی والے تھے کہ صرف چھ دنوں کے قلیل عرصے میں اسرائیل کے جنگی جہازوں نے نہ صرف عرب ممالک کو چاروں شانے چت کردیا ،بلکہ اپنے پڑوس کے چارعرب ممالک کی زمنیں بھی اپنے قبضے میں لے لیں ، مصر سے صحرائے سینا، شام سے گولان کی پہاڑیوں کا علاقہ ، اردن سے یروشلم وغیرہ کا علاقہ اور لبنان کاکچھ حصہ۔ اندازہ لگائیے کہ کہاں ستائیس لاکھ اور کہاں چار کروڑ۔ بظاہر توکوئی مقابلہ ہی نہیں دکھائی دیتا، لیکن نتیجہ کس قدر حیرت ناک اور الم ناک ہے، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ بات بری لگے گی، لیکن حقیقت یہی ہے کہ موجودہ دور میں جو مسلمانوں کے حالات ہیں، انھیں دیکھتے ہوئے بظاہر۔ اللہ نہ کرے۔ اندازہ یہی ہےکہ سوا ارب مسلمان بھی باہم متحد ہوجائیں، تودنیا کی بڑی طاقتوں کی بات توجانے دیجیے ، آج بھی اسرائیل جیسے چھوٹے ملک سے مقابلہ مشکل ہے ۔
صاحبو ! یاد رہے کہ ترقی دوطرح کی ہے ، ایک اخروی اور دوسری دنیاوی۔ اخروی ترقی کے لیے عبادات وریاضات کی ضرورت ہے اور دنیاوی ترقی کے لیے عصری تعلیم ، ٹیکنالوجی اور تحقیق وجستجوکی۔ اورہمارا حال یہ ہے کہ ہم دونوں میدانوں میں پیچھے ہیں ۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں طرح کی ترقیوں کے حصول کا دروازہ باہمی اتحاد واتفاق سے نہیں، بلکہ ذاتی اصلاح وعمل سے کھلتاہے ۔ اس لیے دوسروں پر تنقید کرنے کی بجائے، خود اپنے حالات کا جائزہ لینا چاہیے ۔ یہ میں نہیں کہتا کہ مسلمانوں کے عمومی حالات پر گفتگومناسب نہیں، بلکہ مدعائے سخن صرف یہ ہے کہ مسلمانوں کی پستی وذلت اور پسماندگی وزبوں حالی کا ساراالزام روئے زمین پر بسنے والے مسلمانوں اورمسلم قیادت کے سر ڈال کر خود اپنی ذمہ داریوں سے دامن جھڑک لینا قطعی درست نہیں ہے ۔ مساجدیں آبادکریں، گھروں کا ماحول اسلامی بنائیں اور احباب ورشتہ داروں سے تعلقات بحال رکھیں، تاکہ اخروی ترقی ہاتھ آئے اور ساتھ ہی ساتھ عصری علوم وفنون اور سائنسی ٹیکنالوجی پر توجہ دیں ، تاکہ عزت ووقار ، خوشحالی وفراونی اور عیش وآرام کے ساتھ یہاں چند لمحات گزارسکیں۔
ghulamzarquani@yahoo.com