كورونا ويكسين اور علمائے كرام- (ايك ہمدردانه مشوره)
ادهر چند دنوں سے كورونا ويكسين كے متعلق استفتاء اور افتاء ميں تيزى آ رہى ہے، چونكه راقم سطور كا تعلق بهى علماء كى اس جماعت سے ہے جس سے اس قسم كے سوالات پوچهے جا رہے ہيں، اس لئے ميرى يه تحرير دخل در معقولات كے زمره ميں نہيں آئے گى، بلكه اميد ہے كه اپنى ہى جماعت كا ايك فرد سمجهتے ہوئے علمائے كرام اور مفتيان عظام اس پر سنجيدگى سے غور كريں گے ۔
كورونا ويكسين كى اباحت وحرمت پر كسى قسم كے اظہار خيال سے پہلے ہميں درج ذيل باتيں ذہن ميں ركهنى ہوں گى:
1- جن سائنسدانوں نے يه ويكسين تيار كى ہے وه علماء نہيں ہيں، نه ہى انہوں نے كسى مدرسه ميں تعليم حاصل كى ہے، اور نه ہى اپنى ريسرچ كے درميان انہوں نے كسى دار الافتاء يا علماء كى كسى جماعت سے كوئى مشوره كيا ہے ۔
2- اس ويكسين كے متعلق عالمى ادارۂ صحت رہنمايانه اصول تيار كر رہا ہے، اس عالمى اداره ميں نه كوئى مفتى ہے اور نه كوئى عالم، اور نه يه اداره كسى مدرسه يا دار الافتاء سے كسى رابطه ميں ہے ۔
3- دنيا كا ہر ملك اپنے مفاد كے لحاظ سے اس ويكسين كے استعمال كى حكمت عملى تيار كر رہا ہے، اس مرحله ميں بهى نه كسى مدرسه سے كوئى مشوره ہوگا اور نه كسى دار الافتاء سے ۔
4- بظاہر نئى گائڈ لائن يه ہوگى كه بغير ويكسين كى سرٹيفيكيٹ كے حج اور عمره كا ويزه نہيں ملے گا، بلكه عام بين الاقوامى سفروں كے لئے ويكسين كى سرٹيفيكيٹ ضرورى ہوگى، اور شايد اندرون ملك بهى پبلك ٹرانسپورٹ اور عوامى اداروں كے لئے ويكسين كى سرٹيفيكيٹ ضرورى ہو ۔
اب ہم سوچ ليں كه ہمارے كسى فتوى كى كيا قيمت ہوگى؟ خودہم بغير ويكسين كى سرٹيفيكيٹ كے حج، عمره يا كسى سفر پر روانه نہيں ہو سكيں گے ۔
كيا ہم سمجهتے ہيں كه ہم اس ويكسين كى حرمت كا فتوى دے سكتے ہيں؟ اور اگر بالفرض كوئى مفتى جرأت كركے اس ويكسين كو حرام ٹهہرادے تو اس كے فتوى كى كيا حيثيت ہوگى؟ كياوه خود اس فتوے پر عمل كر سكے گا ؟يا اس كے گهر كے لوگ اس كى پيروى كريں گے؟ يا اس كے شاگرد اور متبعين كو اس كے فتوى سے كوئى دلچسپى ہوگى؟ اب تك ہمارى ايك جماعت فوٹو كو حرام كہ رہى ہے، ليكن عملا اس حرمت كا كوئى اثر نہيں، خود وه لوگ جو اسے حرام كہ رہے ہيں وه بهى بخوشى فوٹو كهنچوا رہے ہيں، اور ان كى تصويريں پورى دنيا ميں گردش كر رہى ہيں ۔
سچ يه ہے كه ہمارے پاس صرف اس ويكسين كو مباح كرنے كا اختيار ہے، ہم ميں سے كچه لوگ “استحاله” كى دليل سے اس كو جائز ٹهہرائيں گے، اور كچه لوگ ضرورت وحاجت كى دليل پيش كريں گے، حاصل سب كا يہى ہوگا كه يه ويكسين مباح ہے، اور شايد كچه لوگ مباح سے آگے اس كے واجب ہونے كا فتوى بهى ديديں ۔
سوال يه ہے كه ہم يه كيوں نہيں سمجهتے كه ان موضوعات سے ہمارا تعلق كليةً ختم كرديا گيا ہے؟ ہمارے فتوون كى حيثيت محض تفريح وتسليه كى ہے، اگر ہم خاموشى اختيار كريں تو شايد اسلام اور مسلمانوں كے حق ميں زياده بہتر ہو، ہم يه كيوں نہيں سمجهتے كه ہم ہر سوال كا جواب دينے كے پابند نہيں؟ اور نه ہى ہر سوال كا جواب دينا ہمارى ملت كے حق ميں مفيد ہے ؟۔