فلم ”ہم دو ہمارے بارہ“ مسلمانوں کے خلاف ایک نئی سازش
ابتدائے آفرینش سے ہی یہود و نصاریٰ، کفار و مشرکین نے مذہب اسلام کو ایذا رسانی اور صفحہ ہستی سے مٹانے کی بھرپور کوششیں کی، شب و روز مسلمانوں کے ایمان کو مجروح کرنے اور اُن کو راہ راست سے ہٹانے کی سازشیں رچتے رہے۔ لیکن اللہ جل و علا نے اس کی ایسی حفاظت فرمائی کہ اعدائے دین کے ناپاک عزائم کو وجود میں آنے سے قبل ہی خاکستر کر دیا اور مذہب اسلام کو مزید تقویت عطا فرمائی-
اس مذہب برحق پر ہر چہار جانب سے آج بھی آئے دن حملے ہوتے رہتے ہیں۔ وقتاً فوقتاً مسلمانوں کے ایمان کو لوٹنے اور اُن کو اُن کے مذہب و مسلک سے ہٹانے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ جن میں پھنس کر ناخواندگان مسلمان (معاذ اللہ رب العالمین) اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں کئی مرتبہ فلمی غنڈوں نے دی کشمیر فائل (The Kashmir Files)، دی کیرلا اسٹوری (The Kerala history) اور بہتر حوریں (72 Hooren) جیسی فتنہ پرور فلمیں بنائیں، جس میں کذب بیانی کر کے مسلمانوں کے مابین انتشار پھیلانے کی کوشش کی گئی۔ ظالموں نے اتنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ حال ہی میں ”ہم دو ہمارے بارہ“ نامی ایک اور فلم بنائی گئی۔ جس کا رائیٹر راجن اگروال اور ڈائریکٹر بریندر بھگت ہے۔ اس فلم میں قرآن و احادیث اور اسلامی عقائد و نظریات کا غلط معنی و مفہوم بیان کیا گیا ہے۔
اس فلم میں سورہ بقرہ کی آیت نمبر 223 کا غلط مفہوم بیان کیا گیا۔ جس کے ذریعہ مسلمانوں کو خواتین کی بنسبت بشکل ظالم و جابر پیش کیا گیا۔ خواتین کی پردہ پوشی، گھروں سے نکلنے پر پابندی، میاں بیوی کے جنسی تعلقات، اور کثرت سے بچے پیدا کرنے جیسے بہت سے معاملات کو غلط نظریہ سے پیش کیا گیا۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 223 ”نساؤكم حرث لكم“ میں لفظ ”حرث“ کو محل استشہاد بنا کر خواتین کو اکسانے اور اُن کے قلوب و اذہان میں خلفشار پیدا کر کے اسلام کے تئیں شش و پنج میں مبتلا کرنے کی ناپاک کوشش کی گئی ہے۔ اور اس فلم کے ذریعہ اُنہیں یہ ذہن دیا گیا کہ اسلام نے عورت کو مرد کی ”کھیتی“ کہا ہے، مسلمان اپنی عورتوں کو صرف تکمیل نفسانی خواہشات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ گویا کہ مذہب اسلام میں عورتوں کی کوئی قدر و اہمیت نہیں۔ (معاذ اللہ) یقیناً اسلام اور مسلمانوں پر یہ ایک ایسا حملہ ہے جس نے مسلمانوں کے قلوب کو مجروح اور روح کو مضطرب کر کے رکھ دیا ہے۔ کیا واقعی اس آیت کا یہی مطلب ہے ؟ تو آئیے پہلے اس آیت کا صحیح مفہوم سمجھتے ہیں۔
نساؤكم حرث لكم کی توضیح و تفسیر
اللہ جل مجدہ اپنے لاریب کلام میں ارشاد فرماتا ہے: ”نساؤكم حرث لكم- فاتوا حرثكم انٰى شئتم- و قدموا لانفسكم“. یعنی ”تمہاری عورتیں تمہارے ليے کھیتیاں ہیں، تو آؤ اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو اور اپنے بھلے کا کام پہلے کرو“-
اولاً: یہ سمجھیں کہ اس آیت کریمہ میں ربِّ ذو الجلال نے عورتوں کو کھیتی سے کیوں تعبیر فرمایا ؟ اور کھیتی سے کیا مراد لیا گیا۔ آئیے اس آیت کریمہ کا شان نزول ملاحظہ فرمائیں-
شان نزول: روایت میں ہے یہودیوں کا یہ گمان تھا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے پیچھے کی جانب سے قبل میں یعنی آگے کے مقام میں جماع کرے تو ایسی صورت میں بچّہ بھینگا پیدا ہوگا۔ (اس لیے پیچھے کی جانب سے آگے کے مقام میں جماع نہیں کرنا چاہیے) یہودیوں کی یہی بات جب حضور علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کے جناب میں پیش کی گئی تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ اور عقد نکاح سے یہی مقصود ہے کہ عورت کھیتی کی جاہ ہے اس پر جس جگہ سے جس طرف سے جماع کیا جائے دُرست ہے۔ (ملخص: تفسیر روح البیان)
پتہ چلا کہ یہاں پر عورت کو لفظ کھیتی سے تعبیر اس لیے کیا گیا کہ جس طرح سے آدمی کو اپنی کھیتی پر اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنے کھیت میں جہاں سے چاہے داخل ہو۔ اسی طرح نکاح کے بعد عورت پر بھی اس کو پورا اختیار ہے کہ وہ اپنی بیوی سے جس طرف سے چاہے آگے کے مقام میں جماع کر سکتا ہے۔
ثانیاً: اس آیت کریمہ میں اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ اس سے مراد ہرگز یہ نہیں کہ عورت سے غیر فطری تعلق قائم کیا جائے۔ پیچھے کی جانب سے بھی جماع صرف آگے کے مقام میں ہی جائز ہے۔ یہود و نصاریٰ، اور جانوروں کی طرح دبر یعنی پیچھے کے مقام میں لواطت کرنا ہرگز جائز نہیں ہے۔ کیوں کہ دبر کھیتی کی جگہ نہیں۔ یعنی بچہ پیدا ہونے کا مقام قبل ہے۔ وہی ایسی جگہ ہے جہاں بیج بویا جاتا ہے۔ لہٰذا جانوروں کی طرح پیچھے کے مقام میں صرف تکمیل ہوس کے لیے لواطت ہرگز روا نہیں۔
خواتین کو کھیتی سے تشبیہ دینے کی وجہ:
قرآن کریم نے عورتوں کو آخر کھیتی سے ہی تشبیہ کیوں دی؟ کسی اور چیز سے کیوں نہیں؟ تو اس کا جواب دینے سے قبل چند باتیں عرض کرتا چلوں۔ کہ خود معترضین اپنی محبوبہ کو کبھی چاند سے تشبیہ دیتے ہیں تو کبھی پھول سے تو کبھی چمیلی سے۔ تب منفی سوچ کے حاملین اعتراض کیوں نہیں کرتے کہ چاند سے تشبیہ کیوں دی؟ چاند پر کتنے سارے داغ ہوتے ہیں۔ اور چاند ایک کھلی ہوئی چیز ہے جو چاہے اسے دیکھ سکتا ہے۔ یا پھول سے تشبیہ کیوں دی ؟ پھول کی خوشبو کوئی بھی آکر سونگھ کر چلا جاتا ہے یا مسل کر پھینک دیتا ہے۔ تب عورتوں کی قدر و قیمت اور اہمیت و کردار یاد کیوں نہیں آتا؟ کیا خواتین اتنی سستی ہیں کہ کوئی بھی آ کر اُنہیں سونگھ کر چلا جائے یا مسل کر پھینک دے؟ لیکن قرآن کریم کے اس فرمان پر فوراً دیوث قسم کے لوگ آگ ببولا ہو گئے۔
یاد رکھیں! قرآن کریم کے ایک لفظ کے کئی کئی معانی و مطالب ہیں۔ جس کا سمجھنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ قرآن کریم مثل سمندر ہے۔ اور سمندر میں کیا کیا ہے یہ ہر کوئی نہیں جان سکتا۔ لہٰذا اللہ سبحانہ وتعالی نے خواتین کو لفظ ”حرث“ سے تشبیہ دے کر اُن کی تضحیک و تذلیل نہیں کی۔ بلکہ مزید اُن کے عزت و وقار کو بڑھا دیا۔ آپ دیکھیں! کھیتی کا مالک کسان ہوتا ہے۔ اور کسان اپنی کھیتی کے لیے کس قدر فکرمند رہتا ہے۔ شب و روز اس کی حفاظت کرتا ہے۔ صبح سویرے ہی اٹھ کر اپنے کھیت پر چلا جاتا ہے۔ اس میں پانی وغیرہ لگا کر بیج ہوتا ہے۔ اور بکریوں، بھیڑیوں، ہاتھیوں اور ہر طرح کے موذی جانوروں سے اس کی حفاظت کرتا ہے۔ اور اس کی ہر طرح کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ کسان اگر اپنی کھیتی کی طرف سے توجہ ہٹا دے تو کھیتی مرجھا جائے گی۔ ساری فصل برباد ہو جائے گی۔
پتہ چلا کہ ربِّ کریم نے شوہروں کو یہ حکم دیا ہے کہ اپنی بیویوں کی حفاظت اپنی کھیتی کی طرح کریں۔ شب و روز اُن کا خیال رکھیں۔ اُن کی ساری ضروریات پوری کریں۔ ایک لمحہ کے لیے بھی اُن کی طرف سے اپنی توجہ نہ ہٹائیں۔ لہٰذا معترضین ذرا اپنے گھر کا جائزہ لیں کہ اُن کے یہاں خواتین کو کیسے رکھا جاتا ہے۔ اُن کے ساتھ کس طرح کے ناروا سلوک کیے جاتے ہیں جو کہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔
خواتین کے لیے پردہ قیدخانہ نہیں
ہم ایک ایسے دور پُرفتن میں جی رہے ہیں جس میں پردہ کرنے کو قدامت پسندی اور عریانیت کو جدت پسندی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ناخواندہ ہوس پرست افراد عورتوں کو پردے میں رکھنا مناسب نہیں سمجھتے بلکہ بے پردگی کو فیشن گردانتے ہیں۔ وہیں کچھ منفی سوچ رکھنے والی خواتین بھی اپنے اوپر عائد کیے گئے اسلامی احکامات کو ظلم تصور کرتی ہیں اور پردے کو بالائے طاق رکھ کر مرکز چشمان ہوس بننا پسند کرتی ہیں۔ یاد رکھیں! پردہ خواتین کے لیے کوئی قیدخانہ نہیں بلکہ شہوت پرستوں کی بری نظر سے حفاظت کا سامان ہے۔ مذہب اسلام نے عورت کو پردے میں رکھ کر اس کی قدر و قیمت اور اہمیت و فضیلت کو اجاگر کیا ہے۔ جس طرح ڈائمنڈ اور سونا چاندی جیسی قیمتی اشیاء کو تجوری کے اندر مقفل کر کے رکھا جاتا ہے اور ملک کی اعلیٰ ترین شخصیات کو بلڈ پروف گاڑیاں اور حفاظتی دستہ کے درمیان رکھا جاتا ہے جس سے مقصود انہیں قید کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس طرح سے ان کی حفاظت کی جاتی ہے۔ اسی طرح سے اس بیش قیمتی خزانے (خواتین) کو پردے میں رکھ کر قید نہیں کیا گیا بلکہ ڈاکوؤں، چور اُچکوں، اور درندوں سے اُن کی حفاظت کی گئی ہے۔
ہم دو ہمارے بارہ
اس فلم کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ کھلے عام مسلمانوں کو نشانہ بنا کر الزام تراشی کی گئی کہ بڑھتی آبادی کا سبب مسلمان ہیں۔ حالانکہ گزشتہ چند سالوں کا رکارڈ اٹھا کر دیکھا جائے تو آبادی کے لحاظ سے ہندوؤں کی تعداد مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ 2023 کی آبادی سنسس کے مطابق ہندو آبادی 78.80٪ یعنی 110 کروڑ ہے۔ اور وہیں مسلم آبادی 14.23٪ یعنی 21 کروڑ ہے۔ اب ذرا اندازہ لگائیں کہ آبادی کس کی وجہ سے زیادہ ہے۔ ”ہم دو ہمارے بارہ“ والا فارمولہ کس نے اپنایا ؟ ”ہم دو ہمارے دو“ اور ”بچے دو ہی اچھے“ کا نعرہ لگانے والوں سے سوال کیا جائے کہ اب یہ قانون یاد کیوں نہیں آتا۔ اسلام کے روشن و تابناک چہرے کو داغدار کرنے کی ناپاک کوشش کرنے والے، اسلامی قوانین اور قرآنی آیات کے متعلق غلط بیانی کرنے والے ذرا ہوش کے ناخن لیں۔
ہم حکومت سے اس فلم کی پابندی کی مانگ کرتے ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں سے فلم انڈسٹری مسلمانوں کے خلاف ایسی فلمیں بناتی آ رہی ہے جس کا حقائق سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔ لہٰذا یہ ایک ناقابل معافی جرم ہے۔ جس کو مسلمان کبھی بھی برداشت نہیں کر سکتے۔ ایسے شر انگیزوں کو سخت سے سخت سزا دی جائے جو سر عام قومی یکجہتی اور اخوت و مودت کا خون کر رہے ہیں اور فتنہ فساد کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ لہٰذا اس فلم کو فوری طور پر ریلیز ہونے سے روکا جائے۔ ایسی فلم بنانے والوں پر قانونی کارروائی کی جائے۔ اور فلم انڈسٹری کو آئندہ ایسی حرکت نہ کرنے کی تلقین کی جائے۔
ربِّ کریم ایسے شرپسندوں سے اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت فرمائے۔ اور وطن عزیز ہندوستان میں امن و امان قائم فرمائے۔ آمین یارب العالمین بجاہ شفیع المذنبین ﷺ