[ad_1]
افغانستان سے لوگ کیوں بھاگ رہے ہیں؟
ہرسامنے والی چیز ایسی نہیں ہوتی، جیسی وہ بظاہر دکھائی دے رہی ہے…
پچھلے ہفتے جس سرعت کے ساتھ طالبان نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی ہے ، اس سے ساری دنیا اب تک سکتے میں ہے ۔ میں نے پنٹاگون، امریکہ کے ایک ذمہ دار کو یہ کہتے سنا کہ چند ہزار جنگجو ؤں پر مشتمل ایک تنظیم کے ہاتھوں کسی بھی ملک کی منظم فوج کی چند دنوں میں پسپائی کی مثال تاریخ انسانی میں آج تک نہیں ملتی ۔ بہت ممکن ہے کہ اس کے پس پردہ عناصر وعوامل پر برسوں بحث ہوتی رہے ، تاہم اب یہ ایک زمینی حقیقت ہے کہ اس وقت افغانستان طالبان کے قبضے میں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی طاقتیں افغانستان کے مسئلے پر طالبان کے ساتھ مل کر افہام وتفہیم سے کام کرنے کے اشارے دے رہی ہیں ۔
بہر کیف، آمدم بر سر مطلب۔ آپ نے بھی یقینا دیکھا ہوگا کہ کابل ایرپورٹ پر ضرورت سے زیادہ بھیڑ جمع ہے ۔ جس دن افغانستان کے صدر جناب اشرف غنی ملک سے فرار ہوئے ، اس دن تولوگ نہ صرف ائیرپورٹ کی عمارت میں بغیر کسی دستایزات کے داخل ہوئے ، بلکہ بہت بڑی تعداد میں رن وے تک جاپہنچے ۔ایسا محسوس ہورہاتھا کہ یہ جہاز نہیں ، بلکہ ٹرین یا بس کے سفر کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش ہے ۔ اور وہ دلخراش منظر تواب تک نگاہوں کے سامنے ہے کہ امریکی فوجی جہاز کے پروں پر پچاسوں افغانی بیٹھے ہیں اور ہوا خوری کے مزے لے رہے ہیں ، پھر جوں ہی جہاز مائل بہ پرواز ہوا، سب گر پڑے ، جن میں سے اطلاعات کے مطابق دوافراد بہت اونچائی سے گرے اور سفر آخرت پر ہمیشہ کے لیےروانہ ہوگئے ۔
اتنی بڑی تعداد میں ملک چھوڑنے کی کوشش عالمی
ذرائع ابلاغ میں موضوع سخن بنی ہوئی ہے اور زیادہ تر مباحثہ کے شرکا اس بات پر متفق دکھائی دیتے ہیں کہ یہ سب کچھ طالبان کے جبر وقہر اورظلم وستم سے خائف ہونے کی وجہ سے ہے ۔ مجھے اس امر سے انکار نہیں ہے کہ ان میں بعض یقینا طالبان کے خوف سے ملک چھوڑنا چاہتے ہیں ، لیکن میرے خیال میں ان کی اکثریت کے ملک سے فرار ہونے کی وجہ یہ نہیں ہے ۔ اسے یوں سمجھیے کہ وہ افغانی جو امریکی اتحادی فوج کے لیے جاسوسی ، سہولت کار یا مترجم کی خدمات انجام دیتے رہے ہیں ، وہ طالبان کی عام معافی کے باجود کسی قدر خائف ہیں کہ کہیں ان سے انتقام نہ لے لیا جائے ، جو کہ انسانی فطرت سے بعید بھی نہیں ۔ اب ذرا دیکھیے کہ ایسے کتنے افغانی امریکی اتحادی فوج کے زیر اہتمام ملازمت سے وابستہ ہوئے ۔ جولائی کے مہینے میں امریکہ نےذرائع ابلاغ کو بتایا تھا کہ امریکی انتظامیہ نے سات ہزار افغانی بحیثیت مترجم رکھے ۔ نیز مخبری کرنے والے ، امریکی انتظامیہ کی حفاظت کرنے والے اور دوسرے افراد بھی شامل کرلیے جائیں ، توکسی طوریہ پچاس ساٹھ ہزار سے زیادہ نہیں بنتے ۔ ۲۵؍اگست کے اعلامیے میں امریکی انتظامیہ نے بتایاہے کہ گذشتہ دس دنوں میں امریکہ نے ساٹھ ہزار سے زائد افراد کا انخلا مکمل کرلیا ہے اور اب بھی ہر ۴۵ منٹ میں ایک جہاز کابل ائیرپورٹ سے روانہ ہورہاہے ۔ بتایا جاتاہے کہ معاہدہ کے مطابق اتحادی فوج کو ۳۱؍اگست تک بہر کیف افغانسان سے روانہ ہوجا ناہے ۔ اسی لیے امریکی صدر جوبائیڈن نے طالبان سے اپیل کی ہے کہ انخلا کی تاریخ میں توسیع کی جائے ، لیکن طالبان نے اسے نامنظور کردیا ہے ۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے جب ممکنہ طور پر تقریبا ایسے تمام لوگ ملک چھوڑ چکے ہیں ، جو طالبان کی انتقامی کاروائی سے خائف تھے، پھر اب بھی کابل ائیرپورٹ کے باہر ہزاروں کی بھیڑ کیوں جمع ہے ؟ اور یہ کیوں کہا جارہاہے کہ اتحادی فوج کے ملک چھوڑنے کی تاریخ ۳۱؍اگست کی بجائے ۳۰ ؍ستمبر بھی کردی جائے ، جب بھی تمام خواہش مند افغانیوں کا انخلاممکن نہیں ہوسکے گا؟
میں جوابا عرض کروں گا کہ جو لوگ مغربی ممالک میں نہیں رہتے یا یہاں بہم پہنچائی جانے والی سہولتوں سے واقف نہیں ہیں ،وہ شاید اس کی حقیقی وجہ تک نہیں پہنچ سکتے ۔ میں آپ کو آنکھوں دیکھا حال سناتاہوں ۔ ہمارے شہر ہیوسٹن میں صومالیہ، شام، برما اور افغانستان کے مہاجرین بہت بڑی تعداد میں بستے ہیں ۔آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ جو لوگ کسی جنگ زدہ علاقے ، یا نظام حکومت کے جبر وظلم سے جان بچا کر بھاگتے ہیں اور مغربی دنیا میں پناہ لیتے ہیں ، انھیں یہاں قانون کے آئینے میں ایسی سہولتیں مہیاکرائی جاتی ہیں ، جو یہاں کے شہریوں کو بھی حاصل نہیں ۔انھیں دسیوں سالوں تک مفت مکان کی سہولت دی جاتی ہے ، انھیں بجلی اور پانی رعایتی قیمت پر دستیاب کرائے جاتے ہیں ، نیز انھیں کھانے پینے کی ضروری چیزیں خریدنے کے لیے ہر ماہ پابندی سے بنام فوڈ اسٹاپ ایک موٹی رقم بھی دی جاتی ہے ۔ ٹھیک اسی طرح میں نے ہالینڈ کے شہر یوترخ میں ایک پروگرام سے فارغ ہوکر باہرنکلتے ہوئے حجاب میں چند خواتین کو سڑک کے کنارے چلتے دیکھا۔ میں نے اپنے میزبان سے استفسار کیا ، توانھوں نے بتایا کہ یہ لوگ ملک شام کے پناہ گزیں ہیں ۔ حکومت نے انھیں بعض پہلو سے یہاں کے مقامی باشندوں سے کہیں زیادہ سہولتیں دے رکھیں ہیں ۔ یہاں کے مقامی باشندے اگر سرکاری سرپرستی میں مہیا کرائے جانے والے مکانات کے لیے درخواست دیں توانھیں دس دس سال تک انتظار کرنا پڑتاہے ، جب کہ پناہ گزینوں کو یہ سہولت صرف چھ مہینوں میں حاصل ہوجاتی ہے ، نیز انھیں اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے مفت تعلیم ، مفت علاج اور ماہانہ اخراجات کے لیے موٹی رقم بھی دی جاتی ہے ۔ ان ساری سہولیات کے علاوہ اقوام متحدہ بھی پناہ گزینوں کی مالی مدد کرتاہے، نیز اصحاب خیر اور مقامی چرچ کی طرف سے ملنی والی پرکشش مراعات اس پر مستزاد ہیں ۔
یہاں پہنچ کر ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ جب اس بات کا یقین ہوجائے کہ افغانستان سے بنام پناہ گزیں کسی بھی مغربی ملک میں قدم رکھنے کے دوسرے دن ہی معاشی خوش حالی کے ساتھ ساتھ تعلیم ، علاج اور رہائشی اہتمام بھی نہایت ہی عالی شان ہوجائے گا ، تومتوسط درجے کے افغانیوں کی کابل ایرپورٹ پر غیر معمولی بھیڑ پر حیرت کیسی ؟ میں متعصب میڈیا کو چیلنج کرتاہوں کہ آپ کسی دن ٹی وی پر یہ خبر نشر کردیں کہ ہندوستان میں جو لوگ نظام حکومت سے خائف ہیں ، ان کے استقبال کے لیے نہ صرف مغربی ممالک تیار ہیں ، بلکہ ان کی طرف سے مفت سفر کی سہولتیں بھی دی جارہی ہیں ،پھر ساری دنیا دیکھ لے گی کہ دہلی کے ائیرپورٹ پر ہزاروں نہیں ،بلکہ لاکھوں کی بھیٹر جمع ہوگئی ہے ۔ اور دنیا یہ بھی سن لے گی کہ بعض حقیقی سرکاری ظالمانہ کاروائیوں کے ساتھ ساتھ ،مغربی ممالک میں پناہ لینے کے شوق میں کس طرح بے بنیاد اور من گھڑت ظلم وتشدد پر مبنی واقعات رو رو کر سنائے جاتے ہیں ؟
صاحبو ! اس امر سے کسے انکار ہے کہ افغانستان دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک ہے ، جسے مسلسل تیس برسوں کی خانہ جنگی نے مزید مشکلات سے دوچار کررکھا ہے ۔ لوگ بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں ، پانی ، بجلی ، علاج اور تعلیم کی عمدہ سہولتیں مفقود ہیں ۔ اب ان حالات میں کوئی اپنے مستقبل کی بہتری کے لیے مغربی ممالک کی سہولتوں سے فائدہ اٹھانا چاہتاہے ، تواسے بلا وجہ میں کسی نظام حکومت سے خائف ہونے کی دلیل سمجھنا قطعی مناسب نہیں ہے ۔
۲۶؍اگست ۲۰۲۱ء
ghulamzarquani@yahoo.com
[ad_2]
Source link