اکیسویں صدی کے بھارت میں سواد اعظم اہل سنت کے جماعتی اختلاف و انتشار نے سنی حنفی مسلمانوں کو قرآن و سنت سے دور کر دیا
کہتے ہیں کہ سواد اعظم،کردارِ قیادت اور قائدانہ گروہ کا نام ہے لیکن یہ سب کتابی باتیں ہیں، زمینی حقیقت یہ ہے کہ یہ دور کا ڈھول ہے، اس لئے سہانا لگتا ہے ورنہ آج دیکھ لیں کہ اکیسویں صدی کے بھارت میں سواد اعظم اہل سنت ، محض تحریر و تقریر کا عنوان اور موضوع گفتگو بن کر رہ گیاہے، اس کے جلوے اور شرارے صرف مذہبی شہ نشینوں پر اور مسلکی تحریر وتقریر ہی میں دیکھے جاتے ہیں۔ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے دورِ زوال کا منظر دیکھنا، سمجھنا ہو تو اکیسویں صدی میں ہندوستان کے سواد اعظم اہل سنت کی صورت حال کو دیکھ لیں، مزید کسی وضاحت کی ضرورت نہیں ہوگی، جہاںمرکزیت نہ رہی اور جماعت برسوں پہلے کہیں گم ہوگئی۔ہر چھوٹا بڑا اپنی اپنی دو گز کی مسجد بلکہ دس بیس گاؤں کی ریاست کا سلطان بن بیٹھا ہے جسے اپنی ریاست اور رعایا کی ضرورتوں اور مسائل کی بھی کوئی خبر نہیں، بس اپنی حاکمانہ، امیرانہ اور جاگیر دارانہ ہوس کی تسکین کے لئے کرنے کی جوآزادی ہےاُسے پوری دنیا جہان سمجھ بیٹھا ہے ۔اس کے آگے اور اپنے اِس گھروندے سے باہر دیکھنے کو تیار نہیں ۔ اپنے کسی بھی خاندانی بزرگ کو نیچا دِکھانے اور سلطنت کے کسی بھی باعزت شخص کی توہین و تذلیل و تضحیک کی آزادی بھی ہے اور یہ سب اُسے اچھا لگتا ہے، اس لئے وہ اپنے وجود کی بنیادوں سے بھی بے خبر ہے۔
آج کے سوادِ اعظم اہل سنت کا جماعتی،پیر پرستی،شخصیت پرستی ، فتویٰ پرستی اور طبقہ پرستی کے گندے تالاب میں غرق ہوگیا ہےکہ یہ بھول گیا ہے کہ وہ سنی ہے،حنفی ہے اور قرآن وسنت سے دور ہوگیا ہے۔
اسے اب احساس بھی نہ رہا کہ رفتہ رفتہ اس کی عظمت رفتہ، رشک اسپین بننے والی ہے اور برسوں پہلے بابری مسجد کی شہادت کی صورت میں سقوط غرناطہ ہو چکا ہے، اب اس کے نشانات اور فصیلوں کو سلیقے سے کھرچا جا رہا ہے، اشارہ کنایہ کی ضرورت نہیں بلکہ سب جانتے ہیں کہ وطن عزیز کو ہر سال ہزاروں علمائے دین، حفاظ قرآن، ائمہ مساجد اور مفتیان کرام کی کھیپ تیار کر کے دینے والے صوبہ اترپردیش کے دینی تعلیمی مدرسے بد خواہوں کے نشانے پر ہیں اور ہلدوانی اتراکھنڈ کی چار ہزار سے زائد گھروں والی مسلم اکثریتی آبادی بھی نیست و نابود ہونے کے کگار پر ہے جہاں سرکاری بجلی ،پانی، سڑک، ڈاک خانہ، بینک اور سرکاری اسپتال کی سہولتیں بھی موجود ہیں لیکن سبھی افراد بے گھر بے زمین ہونے والے ہیں۔یہاں سواد اعظم اہل سنت کے لوگ بھی بے شمار ہیں اور سواد اعظم اہل سنت کی دینی درس گاہیں اور مساجد بھی ہیں لیکن قانونی چارہ جوئی کے لئے سواد اعظم اہل سنت کی کوئی بھی تنظیم و تحریک اور شخصیت سامنے یہاںنظر نہیں آتی۔حالاں کہ ہلدوانی کے قریب میں بھی سوادِ اعظم اہل سنت کی مسجدیں،مدرسے اور مسلمان موجود ہیں۔
اتر پردیش مدرسہ تعلیمی بورڈ کے کلینڈر۲۰۲۳ء میں مدرسوں کے لئے تعطیل کلاں میں سات دنوں کی تخفیف کر دی گئی ہے یعنی اب مدرسوں کی سالانہ چھٹی۲۶ کی بجائے۲۹ شعبان کو ہوگی جس سے دور دراز کے طلبہ کو سفر میں اور حفاط کو تراویح کے مقام تک پہنچنے میں دقت ہوگی۔ اب تک رمضان المبارک اور عید کے لئے۴۳دنوں کی تعطیل ملتی رہی ہے لیکن اب صرف۳۶ دن ہی ملیں گے اور پانچ شوال کو مدرسے کھلیں گے۔ البتہ ہفتے کی چھٹی جمعہ کو ہی ملتی رہے گی لیکن وہ بھی اتوار کو ہو جائے، یہ فیصلہ محفوظ ہے، یہ سب بھی کوئی بڑا مسئلہ نہیں اورسنسکرت پاٹھ شالاؤں میں نہیں بلکہ قومی تہواروں میں مدارس میں تقریب کرنا لازمی ہے جس کے ویڈیو ثبوت بھی حکومت کو پیش کرنا لازمی ہے۔اسی طرح یہ بھی کوئی مسئلہ نہیں کہ شدید سردی گرمی اور کسی آفت ناگہانی اور کرونا وغیرہ کی سرکاری گائیڈ لائن مدارس پر بھی پوری طرح نافذ ہوں گے یعنی ہنگامی حالات میں ہزاروں طلبہ و اساتذہ کو سرکاری حکم نامہ جاری ہونے کے بعد ہنگامہ سفر کر کے گھروں کو واپس بھی جانا پڑ سکتا ہے۔
در اصل یہ بھی کوئی مسئلہ نہیں کہ اب نمازوں کے اوقات سے تعلیمی اوقات کا نظام نہیں چلے گا بلکہ یکم اپریل سے تیس ستمبر تک مدرسے کا تعلیمی وقت صبح آٹھ سے دو بجے تک اور یکم اکتوبر سے اکیتس مارچ تک نو بجے سے تین بجے تک ہوگا، یہ سبھی اعلانات ڈاکٹر افتخار احمد جاوید چیئرمین مدرسہ بورڈ کی جانب سے مسلسل جاری ہیں اور مزید اندیشے اپنا کام کر رہے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ دینیات وقرآن کی تعلیم وتدریس کے لئے ہندوستانی مسلمانوں کی حلال کمائی سے تعمیر کیے گئے بےشمار مدرسے اپنی پہچان کھونے لگے ہیں اور اپنا وجود باقی رکھنے کے قابل نہیں رہے۔ مفادات اور شخصیات پرستی نے اِس خطرناک صورت حال کی جانب دیکھنے سے معذور کردیا ہے۔
دوسری طرف ملکی سطح پر مدرسے کی تعلیم سے الگ عصری نظام تعلیم کے تحت اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی امید رکھنے والے مسلم طلبہ و طالبات کے لئے مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ ختم کر دیا گیا ہے جس کا پارلیمنٹ میں مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور اسمرتی ایرانی نے باضابطہ اعلان کر دیا ہے۔ پہلے أول سے آٹھویں تک کا اسکالر شپ بند کیا،اب سول سروسز کی تیاری کرنے والے اقلیتی طلبہ کی ’’نیو اڑان اسکیم‘‘ کوختم کر دیا۔یہ فیلو شپ اپریل ۲۰۰۹ء میں مرکزی سیکٹر اسکیم کے طور پر شروع کیا گیا تھا جسے یو جی سی کے ذریعے لاگو ہونا طے پایا، ایم فل پی ایچ ڈی جیسی اعلیٰ تعلیم کے لئے اقلیتی طلبہ کی خاطر مالی امداد کا سرکاری تعاون منظور ہوا جس میں سے تیس فیصد خواتین کے لئے مختص ہے،اقلیتی فلاح کی خاطر ہی۱۹۸۸ء میں مولانا ابو الکلام آزاد کی صدی تقریبات کے سال مولانا آزاد ایجوکیشنل فاؤنڈیشن کا قیام ہوا تھا۔اسی فاؤنڈیشن کی جانب سے یہ سرکاری وظیفہ شروع ہوا تھا جسے اب بند کردیا گیا ہے۔
یہ وظیفہ ،بھارت کے اُن اقلیتی طلبہ کو امدادی رقم دی جاتی ہے جو اندرون ملک کل وقتی طور پر ریسرچ کورس کرتے ہیںلیکن بھارت سرکار پس ماندگی، درماندگی اور غربت و مشکلات کو دور کرنے کے لئے نیا کچھ کرنے کی بجائے پہلے سےحاصل مراعات اور سہولتوں کو بھی ختم کرنے لگی ہے ۔ سب کے ساتھ سب کے وِکاس کی پالیسی کے تحت ابتدائی تعلیم کو آسان بنانے کی اسکیم ختم کی جا رہی ہے تو اعلیٰ تعلیم کو دشوار بنا رہی ہے۔حالاں کہ کسی بھی حکومت کا بنیادی کام دستوری اقدام ہوتا ہے۔ ساتھ ہی اُن طبقوں کی دستگیری کرنا ہے جو مالی مشکلات اور غربت کے سبب تعلیمی زندگی میں پیچھے رہ گئے ہیں۔یہ اسکیمیں بند کرنے کا مطلب ہے کہ موجودہ حکومت اِس بنیادی کام سے بھاگ رہی ہے اور عوامی حکومت کو عوامی ضرورتوں سے آزاد کر کے عوام کو حکومت سے مایوس کرنے لگی ہے۔ سب کا ساتھ سب کا وشواس سب کا وِکاس کی تازہ مثال دیکھتے جائیں۔
اقلیتی سماج کے نمائندہ سابق مرکزی وزیر منموہن سنگھ نے سچر کمیٹی کی سفارشات کی بنیاد پر مرکزی وزارت برائے اقلیتی امور قائم کی جس کے تحت عیسائی مسلم جین پارسی اور سکھ سبھی طبقوں اور سماجوں کے طلبہ اور عوام آتے ہیں۔بعد میں فاؤنڈیشن کو اُسی وزارت کے زیر انتظام کردیا گیا جس کی موجودہ مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی نے یہ کارنامہ کردِکھایا ہے حالاں کہ یہ بھی اقلیتی سماج سے آتی ہیں لیکن ان کی سعادت مندی یہ ہے کہ وہ ایسی حکومت کا حصہ اور ایسی سیاسی پارٹی کی نمائندہ ہیں جس کا نعرہ ہے ’’انصاف سب کے ساتھ رعایت کسی کو نہیں‘‘
اسی لئےاِن سبھی مسائل اور صورت حال کے ساتھ ایف سی آر اے کی آسانیاں بھی ختم کر دی گئی ہیں تاکہ اندرون ملک سے رعایت وسہولت نہیں تو بیرونی امداد کا سلسلہ بھی بند ہو جائے۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ جسٹس واعظ میاں اور جسٹس سنیت کمار پر مشتمل الہ آباد ہائی کورٹ کے ایک بینچ نے فیصلہ سنایا ہے کہ دو بالغوں کو آزادی ہے کہ وہ جس طرح چاہیں ساتھ رہیں، اس سلسلے میں کوئی بھی ان کے تعلقات قائم کرنے پر اعتراض نہیں کر سکتا، اس فیصلہ کے جواز کی دلیل کے طور پر ججوں نے سپریم کورٹ کی ایک نظیر پیش کی ہے۔
یعنی ہم آپس میں لگے بجھے ہیں اور ہمارے بدخواہ ہماری شریعت کے خلاف فیصلے کررہے ہیںجسے دستورِ ہند نے مسلم پرسنل لا کی حیثیت سے تسلیم کیا ہے۔چلو مان لیا کہ سوادِ اعظم کے لئے قائدانہ کردار کا مظاہرہ کرنے کا وقت نہیں آیا ہے لیکن اس کی مرثیہ خوانی کے لئے کسی خاص وقت کا انتظار نہیں ،وہی ہم کرنے لگے ہیں۔
٭٭٭
z.barkati@gmail.com