[ad_1]
ترکی زلزلہ:کیا کچھ کھویا کیا کچھ پایا؟
ترکی کی زلزلہ کیا آیا کہ سب کی نگاہیں باشندگان ترکی پر مرکوز ہوگئیں۔ کیا اپنے اور کیا بیگانے سب ہی اپنی اپنی ہمدردیوں کے ساتھ اہل ترکی کے دکھ-درد میں شریک نظر آرہے ہیں۔ آج عالمی سطح پر ہر چھوٹا-بڑا ملک اور اُس کے باشندگان، ترکی میں ہوئی تباہیوں اور نقصانات کے سبب نہ صرف صدمے میں ہیں بلکہ اُس کی باز آبادکاری کے لیے اپنے اپنے طور پر کوشاں بھی ہیں۔ ایک طرف دیکھا جائے تو اِس میں کسی کو شک و تردد نہیں ہونا چاہیےکہ ترکی میں زلزلے کے سبب جس قدر بےتحاشا بربادیاں ہوئی ہیں کہ اُن بربادیوں کی تلافی کے لیے ایک دراز عرصہ درکار ہے۔ وہیں دوسری طرف دیکھا جائے تو ترکی کی اِس ہیبت ناک زلزلے نے پوری عالمی برادری کو ایک پلیٹ فارم جمع کردیا ہے اور وہ ہے انسانی ہمدردی اور ایک دوسرے انسان کے لیے خیر خواہی و نفع رسانی کا جذبہ۔ یہی وہ جذبہ ہے جو ایک انسان کو دوسرے انسان سے قریب کرتا ہے۔
ایک انسان کو دوسرے انسان سے جوڑتا ہےاور خلقت انسانی کےبنیادی مقاصد میں سے جو ایک اہم مقصدہے کہ بندگان خدا کے لیے نفع بخش ہونا تو وہ حاصل ہوتا ہے۔ آج پوری دنیا اہل ترکی صحت و سلامتی اوراُن کی تعمیر و بازآبادکاری کی فکر میں مصروف ہے۔ خواہ وہ دُعا کے ذریعے ہو۔ خواہ وہ مالی امداد کے ذریعے ہو، یا پھر ہمدردانہ اور خیر خواہانہ جذبات و احساسات کے اظہار کے ذریعے، اور یہ تمام باتیں حالیہ دنوں میں عالمی سطح پر زلزلہ سے متاثرین اہل ترکی کے حق میں بخوبی دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ اگر یہی انسانی ہمدردی اور خیر خواہی کا جذبہ و احساس ہمارے درمیان عالمی سطح پرزندہ اور بیدار رَہا تو یقینی طورپر ہر زمانے اور ہرماحول میں ہماری اِس سنہری دنیا اورگلستان زندگی کے اُفق پر اَمن و سلامتی اور صلح و آشتی کا منظر بخوبی دیکھنے کو ملتا رہےگا۔
مزید اِس عظیم سانحے کے بعد اَہل ترکی کی بازآبادکاری کے لیےجس طرح سے بلاتفریق مذہب تمام ممالک و ملل آگے آرہے ہیں اور جس قدر ہنگامی پیمانے پر بلاتفریق برادری محض انسانیت کی خاطر ترکی میں راحت رسانی کی خدمات انجام دے رہے ہیں وہ نہ صرف سراہے جانے کے قابل ہیں بلکہ تمام عالم انسانیت کے لیے بالخصوص حوصلہ افزا اَور تمام ممالک کی تعمیر و ترقی کے لیے بالعموم نیک شگون اور نیک نیک فال ہے۔نیز اِس سلسلے میں ہمارے ملک ہندوستان نے بھی اپنی تمام تر منافرت اور ذات-برادری کی ہولناکیوں کے باوجود تحفظ انسانیت کی خاطر جس حسن کردار کا مظاہرہ کیا ہے اُس کے سبب ہم ہندوستانیوں کا سر فخر سے اُونچا ہو رہا ہے اور ہندوستان کے اِس راحت رسانی پر ترکی عہدیداران نے جس جذباتی تشکر کا اظہار کیا ہے وہ ہر دو ممالک کے حق میں خیر کا پہلو لیے ہوئے ہے۔
اِس موقع پر ایک خاص بات یہ بھی دیکھنے میں آرہی ہے کہ دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ عزرائیل جیسے سخت مسلم دشمن ملک بھی ترکی متاثرین کی امداد میں آگے آئے ہیں اور پانی صاف کرنے والی مشین کٹ بھیج کر اِنسانیت کو بچانے کا کام کیا ہے۔ چوں کہ غذا کے ساتھ انسانی زندگی کے لیے پانی بھی ناگزیر ہے اِس لیے ایک ایسے جانکنی کے عالم میں جہاں زلزلے کے سبب بہرنوع خورد و نوش کا عظیم بحران پیدا ہوجائے تو وہاں صاف ستھرا پانی مہیا کرانا بھی ایک غیر معمولی کارنامہ ہے اور اِنسانی ہمدردی کی بہترین مثال ہے۔ باوجودیکہ ہم بیشتر افکار و خیالات میں عزرائیل کے ساتھ نہیں ہیں لیکن اِس مثالی و تاریخی اور خیرخواہانہ اقدام پر اُس کی سراہنا کیے بغیر ہم نہیں رہ سکتے۔ اِس کے علاوہ اِس حادثےنے ہمیں اور آپ کو بہت ایسی باتیں بھی سکھادی ہیں جنھیں ہم برسوں سکھائے، سیکھ نہیں پاتے۔ وہ ہے حیات انسانی گزارنے کاسلیقہ اور کچھ ایسی حیرت انگیزیاں جو ہر اِنسان کو اپنی طرف متوجہ کیے بغیر نہیں رہتیں اور کچھ ایسے لمحات بھی ہیں جوحیات انسانی میں ایک عبرت انگیزی وسبق آموزی کے طورپر صدیوں تک ذہن انسانی میں محفوظ رہ جاتی ہے۔
بالخصوص وہ منظر اِنتہائی جذباتی ہونے کے ساتھ ہم سب کو دعوت فکر بھی دیتا ہے کہ جس میں ایک بچی اپنے چھوٹے بھائی کی حفاظت و سلامتی کی خاطر اپنی جان تک کی پرواہ نہیں کرتی۔ جب کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پہلے وہ اپنی جان کی پرواہ کرتی پھر اپنے چھوٹے بھائی کی فکر کرتی کہ یہی انسانی فطرت ہے۔ لیکن حالیہ وحشت ناک زلزلے کی شکار ہونے کے باوجود اپنی جان کی فکر کرنے کی بجائے اپنے چھوٹے بھائی کی جان بچانے کی فکر کرنے کے سبب جہاں اُس کی عظیم شجاعت وبہادری کا پتا چلتا ہے وہیں اُس کے اندر موجود اُس اِنبیائی وصف کا اظہار بھی ہوتا ہے جس کے سبب اپنی ضرورت پر دیگر بندگان خدا کی ضرورت کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہم ترکی حکمران طیب اردغان کے حوصلے اور صبر و استقامت، نیز اُن کے عزم و ارادے کو بھی سراہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ ایسے ہلاکت خیز زلزلے کو ایک طرف وہ شعار رَبانی کا ایک حصہ قرار دیتے ہیں تو دوسری طرف اِس مصیبت کی گھڑی میں بہرحال اہل ترکی کو ان کی بازآباکاری کا یقین دلاتے ہیں اور ترکی عوام کی فلاح و بہبودی اور اُن کی تعمیر و ترقی کے لیے کوشاں بھی نظر آرہے ہیں۔ بظاہر زلزلے نے واقعی بڑی تباہی مچائی ہے لیکن بباطن دیکھا جائے تو اِس کے بعد جس نسل کا عہد آئےگا وہ نسل رشک آور ہوگی اور اپنی اگلی نسلوں سے زیادہ پُرعزم ہوگی اور یہ آنے والی نسل نہ صرف ترکی کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک مثال بنےگی ۔ کیوں کہ جب بھی کوئی قوم جدوجہد اور تگ ودو کے بعد زندگی کے شاہراہ پر آگے بڑھتی ہے تو کچھ نقوش قدم ضرور چھوڑ جاتی ہے۔
جب سے ہوش کی دنیا میں ہم آئے ہیں تبھی سے یہ سنتے آرہے ہیں کہ جسے اللہ رکھے اُسے کون چکھے اور بےشک اللہ کی پکڑ بڑی سخت ہے کہ جس سے کوئی بھاگ نہیں سکتا ہے۔ اِس پس منظر میں بھی دیکھا جائے تو حالیہ زلزلے کے سبب یہ دونوں باتیں سچ ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ وہ اِس طور پر کہ آج تمام طرح کی سائنسی ایجادات اور چاند پر پہنچنے کی طاقت و قوت رکھنے کے باوجودیکہ ہم انسانوں کے پاس وہ سکت و قوت نہیں کہ خود کو آسمانی آفات و بلیات سے یا یہ کہہ لیں کہ خود کو قدرت ربانی کی گرفت سے بچالیں۔
اس کے برعکس یہ بھی سکت و قوت نہیں کہ جسے اللہ بچانا چاہے اُسے ہم اپنی گرفت میں کرلیں۔ مثال کے طور پر جدید ترین ٹیکنالوجی سے آراستہ و پیراستہ ہونے کے بعد بھی نہ ہم اپنے بلند و بالا محلات کو بچا پاتے ہیں اور نہ ہی اپنی جان و مال کو ہلاکت وبربادی سے محفوظ رکھ پاتے ہیں۔ اُسی طرح ٹنوں وزنی ملبے تلے دبنے کے بعد بھی ہم اور ہماری آل- اولاد بچ جاتی ہیں، جب کہ اُسی میں بہت سے افراد موت کی نیند سوجاتے ہیں۔ یہ سب کیا ہے؟ یعنی یہ سب حیرت انگیزیاں اور یہ سب ناقابل یقین باتیں قدرت ربانی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
[ad_2]
Source link