
’’مجھے یہ تازہ گلاب اور موتیے کے کنگن پسند ہیں۔
مجھے اچھا لگتا ہے جب تم اپنے سگریٹ کے پیسے بچا کر یا کسی روز دفتر میں کینٹین کے بہ جائے کسی سستے ٹھیلے سے پیٹ بھر کر جو 100، 50 روپے بچاتے ہو، وہ مجھ پر خرچ کر دیتے ہو۔ مجھے اپنا وجود اہم لگنے لگتا ہے۔۔۔!‘‘
’’پَگلی ہو تم۔۔۔ یہ تو بہت معمولی تحفہ ہے، لڑکیاں تو سونے چاندی کے زیور پہن کر خوش ہوتی ہیں، اور تم ان مُرجھا جانے والے پھولوں سے خوش ہو جاتی ہو؟ ‘‘
’’ہاں۔۔۔ کیوں کہ وہ سونا چاندی تو دولت کو محفوظ کرنے کا ایک طریقہ ہے، محبت تو یہی ہے کہ اپنی ضروریات کو نظر انداز کر کے تم ان گجروں کو خریدتے ہو۔ شکریہ تمھارا، اگر کبھی خوشیاں پَرے ہوگئیں یا غموں کا موسم ہماری زندگی میں آن ٹھیرا، تو میں بھی چھوٹی چھوٹی خوشیاں تمھیں کسی بچت کی مانند لوٹاتی رہوں گی۔‘‘
اس کی آنکھوں میں ایک اُلُوہی سی چمک تھی۔ اس کے سانولے سے چہرے پر کوئی سنہرا سا محبت کا مان جھل مل جھل مل کر رہا تھا۔ عورت کا تو خمیر ہی کچھ ایسا ہے۔ ذرا سی توجہ میں وہ کھل کھل جاتی ہے۔ پھر چاہے حالات سخت ہوں یا زمانے کی تلخیاں، وہ روکھی سوکھی میں بھی مست مگن ہوتی ہے۔ سستے کپڑوں میں بھی بہت سنوری سنوری سی دکھائی دیتی ہے۔
لیکن یہ تو ایک کہانی ہے، اگر ہم حقیقت میں دیکھیں، تو ہمارے آس پاس کتنی ایسی عورتیں ہیں، جو قیمتی لباس میں بھی بجھی بجھی سی، آنکھیں بھی مسکراتے ہوئے چہرے کا ساتھ نہیں دیتیں۔ گھر کے کام نمٹاتے نمٹاتے ایک دن پوری زندگی ہی کیسے نمٹ جاتی ہے، معلوم ہی نہیں ہوتا۔ وہ توجہ اور ذرا سی محبت و ستائش کو ترسی جاتی ہیں۔ پھر یوں ہوتا ہے کہ مسلسل بے توجہی کے بعد ان کا دل امنگوں سے خالی ہونے لگتا ہے۔ ایک جیسا دن، ایک ہی سی معمولات سے دماغ اور جسم تھکنے لگتا ہے۔ جھنجھلاہٹ جو تھی، وہ چڑچڑاہٹ میں بدلتی ہے اور پھر باہمی زندگی کی تلخیاں بڑھتی ہیں، جو خدانخواستہ کسی سنجیدہ نوعیت کی صورت حال یا کسی بیماری کی شکل میں بھی بدل سکتی ہیں۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سب کا شکوہ آخر کس سے کیا جائے۔۔۔؟ وہ آدمی، جو بیاہ کر لے تو آتا ہے، اور ذمہ دار بن کر ساری خوشیاں دینے کا ’ٹھیکا‘ بھی اپنے سر اٹھا لیتا ہے، لیکن وقت اور حالات کی سختی میں پستا ہوا وہ مرد، اس عورت کو کہیں فراموش ہی کر دیتا ہے۔ جو خاموشی سے اس کا گھر سنبھالے اس کے بچوں کو پال رہی ہے۔ گھر جاتا ہے، تو سجے سنورے گھر میں ذائقے دار کھانے میز پر دھرے ہوتے ہیں۔ گرم اور نرم پھلکے اس کی رکابی میں آتے رہتے ہیں۔ چائے آجاتی ہے، لیکن کوئی شوخ جملہ کوئی ہنسی کی کھنک اُسے سنائی نہیں دیتی، کیوں۔۔۔؟ وہ جو کبھی اس نے فرمائش کی تھی، موتیے کے کنگن لانے کی، تو اس نے بڑی بیزاری سے جتا دیا تھا کہ سارا خرچہ تو تمھارے پاس ہوتا ہے۔ خرید لیا کرو اپنے لیے۔۔۔!
سو پھر یوں ہوا کہ اب تو ایسی کوئی چھوٹی سی فرمائش بھی سننے کو ترس سا گیا ہے یہ آدمی۔ وہ عورت اب کچھ کہتی ہی نہیں۔۔۔ بس خاموشی سے سب کام کرتی چلی جاتی ہے، جیسے کوئی لگی بندھی سی مشین ، لیکن ایسا کیوں ہے۔۔۔؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ مانا کہ آپ سادہ طبیعت کے انسان ہیں، آپ کو محبت جتانی نہیں آتی، یا شادی کے برسوں کے بعد یہ اظہار کرنا معیوب لگتا ہے، تو اس میں کیا مسئلہ ہے، پھر سیکھ لیجیے۔ خود آپ کی زندگی میں بھی ایک دھند سی جو چھائی ہے، چھٹ جائے گی، بس چھوٹی چھوٹی سی اچھی باتوں کو اہمیت دینے کی عادت ڈالیے۔
کبھی چائے اچھی لگے، یا کوئی رنگ بھا جائے، تو کہہ دیا کیجیے۔ آپ کا یہ بہت چھوٹا سا جملہ اس عورت کے عارض کیسے گلال کرتا ہے، اس کا جادو دیکھیے۔ اور پھر یہ مسرت آپ کے وجود میں منعکس ہوگی اور گھر کے ماحول میں دمکے گی۔ یہ گھر کا خرچہ ہے اور یہ کچھ روپے خاص تمھارے لیے اگر محض ہر ماہ یہی کہہ کر آمدنی بیوی کو تھمائی جائے، تو اس کا مان کتنا بڑھ جاتا ہے۔ کبھی خاص خاتون خانہ کے لیے لایا گیا اس کی پسند کا موسمی پھل کیسے صحت بناتا ہے، آپ حیران ہو جائیں گے۔ یہ سب ہرگز فضول خرچی ہے اور نہ چونچلے، بلکہ گھرانے اور اس کے بنیادی رشتوں کو مضبوط بنانے اور تازہ رکھنے کے بہت آسان سے گُر ہیں۔
سو خوش رہیے، اپنی شریک حیات کی خوشی کے لیے بھی متحرک رہیے، اور اپنے گھر میں خوشیاں پھیلائیں، کیوں کہ زندگی کی کٹھنائیاں ایسے ہی آسان ہوجاتی ہیں، ورنہ کبھی لگے بندھے معمولات زندگی میں بیزاری پیدا کرنے لگتے ہیں، اور کبھی یہ بیزاری کا زہر جمع ہوتا رہتا ہے تو پھر کبھی حسد، لڑائی جھگڑوں اور بہت سے منفی رویوں کی صورت بھی اختیار کر جاتا ہے، جو پھر دوسرے رشتوں پر بھی اثر انداز ہونے لگتا ہے۔ یاد رکھیے، ایک مثبت رشتہ ہی ایک صحت مند اور آسودہ خاندان کو تشکیل دیتا ہے۔