
[ad_1]
متنازعہ وقف ترمیمی بل کو پاس کر کے آخرکار تمام اندیشے اور اندازے صحیح ثابت کرتے ہوئے حکومت وقت اپنی ضد کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ اس اقدام سے جہاں اکثریتی طبقے کے کچھ لوگ بلیوں اچھل رہے ہیں وہیں حکمرانوں اور انتہا پسندوں کی جارحیت اور غیر آئینی طرزِ عمل نے ملک کے ایک بڑے طبقے کو بدظن کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ حکومت کی ذمہ داری ملک کی ترقی کو رفتار دینا اور امن و امان کو قائم رکھنا ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ عوام میں کسی بھی طرح کی نفرت اور افراتفری کو روکنا بھی حکومت کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک ہے لیکن اس معاملے میں حکومت کے طرزِ عمل سے صاف ہے کہ اس نے انتخابی فائدے کے لیے اقلیت اور اکثریت کو تقسیم کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔
وقف ایکٹ میں ترمیمات کے حالیہ بل کی منظوری نے مسلمانوں کو تقریباً مایوس اور الگ تھلگ کر دیا ہے، کیونکہ یہ ترمیمات آئینِ ہند میں دیے گئے ان کے آئینی حقوق کو نظر انداز کر کے کی گئی ہیں۔ اس عمل نے مسلم نوجوانوں میں بیگانگی کا احساس پیدا کیا ہے، جو اب اپنے ملک کے سیاسی منظرنامے میں اپنی جگہ کے بارے میں شش و پنج میں آ گئے ہیں۔ اس بل کی منظوری ہندوستان میں مسلمانوں کی باوقار بقا کی جدوجہد میں ایک اہم موڑ کی نشاندہی کرتی ہے۔ مسلمانوں کے لیے وقف بل کی منظوری ایک نوشتۂ دیوار سے کم نہیں ہے۔ انہیں یہ نوشتۂ دیوار پڑھ لینا چاہئے کہ ان کا حاشیہ تنگ کرنے میں کوئی بھی پیچھے نہیں ہے۔ وقف بل نے نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے چہرے سے نقاب نوچ پھینکی ہے۔
[ad_2]
Source link