
[ad_1]
رمضان کے دوران مساجد میں بچوں کی شرارتوں سے نمازیوں کو دشواری عام بات ہے۔ والدین اور مسجد انتظامیہ مل کر بچوں کی دینی تربیت اور نظم و ضبط کے لیے عملی اقدامات کر کے اس مسئلہ کا حل نکال سکتے ہیں

علامتی تصویر / اے آئی
رمضان کا مہینہ اب ختم ہونے جا رہا ہے۔ ہر سال کی طرح امسال بھی ماہِ رمضان کے دوران مساجد میں نمازیوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ اس دوران بچے بھی بڑی تعداد میں مساجد میں نماز پڑھنے کے لیے گئے۔ مگر کئی مساجد میں بچوں کی شرارتوں اور شور و غل کا بھی سامنا رہا۔ نماز کے دوران بچے دھکا مکی کرتے، صفوں کے درمیان آتے جاتے اور کئی طرح کی شرارتیں کرتے نظر آئے۔ امام صاحب کے اعلانات کا بھی ان پر کوئی خاص اثر نہیں ہوا۔ اگر معذّن یا کوئی ذمہ دار فرد بچوں کو سختی سے منع کرتا ہے تو والدین کو برا لگتا ہے۔ ایسی صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مسئلے کا عملی حل کیا ہے؟
خیال رہے کہ رمضان میں تراویح اور جمعہ کی نماز کے دوران بچوں کی شرارتیں عروج پر رہتی ہیں۔ تراویح میں بچے بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں اور مسجد کے نظم و ضبط کو متاثر کرتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ بچے لمبی نمازیں پڑھنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں، لیکن والدین کو چاہیے کہ وہ چھوٹے بچوں کو کم از کم تراویح میں نہ بھیجیں۔
کئی بار بچے دانستہ شرارتیں کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ سردیوں میں نماز تراویح کے دوران بچوں نے پنکھے چلا دیے تھے، جس سے نمازی سردی سے کانپ اٹھے۔ گرمی میں یہی بچے پنکھے بند کر دیتے ہیں یا باہر سے گیٹ لاک کر دیتے ہیں۔ بعض اوقات اگر کوئی نمازی کھانس دیتا تو بچے باری باری سے کھانسنے لگتے، گویا یہ کوئی کھیل ہے۔
بچوں کا مسجد میں آنا خوش آئند ہے، لیکن یہ ضروری ہے کہ والدین انہیں مسجد کے آداب سکھائیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو روانگی سے قبل سمجھا کر بھیجیں کہ مسجد میں شور مچانا منع ہے۔ ماؤں کو چاہیے کہ وہ بچوں سے پوچھیں کہ انہوں نے مسجد میں کیا کیا۔ اگر بچے نے شرارت کی ہو تو پیار سے سمجھائیں تاکہ آئندہ وہ احتیاط کرے۔
مساجد کی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ بچوں کو نظم و ضبط سکھانے کے لیے مثبت طریقے اپنائے۔ اگر کوئی بچہ نماز میں اچھے برتاؤ کا مظاہرہ کرے تو اسے انعام یا تحسینی کلمات سے نوازا جائے۔ اس سے بچوں میں مساجد کے آداب کا احترام پیدا ہوگا اور وہ بہتر رویے کا مظاہرہ کریں گے۔
ریاست کیرالہ میں مسجد الرحمہ نے بچوں کو مسجد کی طرف راغب کرنے کے لیے ایک منفرد قدم اٹھایا۔ مسجد کی انتظامیہ نے چھت پر مصنوعی فٹبال کا میدان بنایا تاکہ بچے کھیل کے ساتھ ساتھ مسجد سے جڑے رہیں۔ اس اقدام کا مقصد بچوں کی ہمہ جہت نشونما کو فروغ دینا تھا۔
ترکی میں بھی بچوں کو مساجد کی طرف راغب کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر، کوکایلی کے باشیسکلی ضلع کی مرکزی مسجد کے امام قادر چلیکیز نے بچوں کے لیے کھیل کا میدان بنایا، جس سے قرآن کلاسز میں بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ مسجد میں تھیٹر پرفارمنسز اور روایتی کھیلوں کا اہتمام بھی کیا گیا، جس سے بچوں میں مساجد کے لیے محبت پیدا ہوئی۔
برصغیر کی مساجد میں وسائل کی محدودیت کو مدنظر رکھتے ہوئے، بچوں کے لیے سادہ اور کم خرچ اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ مثلاً نماز کے بعد بچوں کو نبیوں کی کہانیاں یا اخلاقی قصے سنائے جائیں تاکہ ان کی دینی تربیت ہو اور وہ مسجد سے جڑے رہیں۔ مسجد کے ایک حصے میں بچوں کے لیے مخصوص جگہ مختص کی جائے جہاں وہ بیٹھ سکیں اور ان کی نگرانی آسان ہو۔ والدین کو ترغیب دی جائے کہ وہ بچوں کے ساتھ مسجد آئیں اور ان کے رویے پر نظر رکھیں۔ بچوں کے اچھے برتاؤ پر ان کی حوصلہ افزائی کے لیے چھوٹے انعامات یا تعریفی کلمات دیے جائیں۔
رمضان میں مساجد میں بچوں کا شور ایک اہم مسئلہ بن کر سامنے آیا۔ والدین، مسجد انتظامیہ اور کمیونٹی کو چاہیے کہ وہ مل کر بچوں کو مساجد کے آداب سکھائیں۔ ترکی اور کیرالہ کی مساجد میں بچوں کے لیے کیے گئے اقدامات ہمارے لیے ایک مثال بن سکتے ہیں۔ محدود وسائل کے باوجود، سادہ اور مؤثر طریقوں سے بچوں کو مسجد سے جوڑنے اور ان کی دینی تربیت کا اہتمام کیا جا سکتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
[ad_2]
Source link