
ایک جنگل میں بہت سے جانور رہتے تھے جیسے بندر ریچھ، لومڑی ،خرگوش گیڈر، ہرن ،چیتا ،نیل گائے ، ہاتھی – جنگل میں بہت سارے پیڑ بھی تھے شیشم کے درخت چیڑ کے درخت دیار کے درخت چنار کے درخت سفیدے کے درخت اور ان درختوں پر خوبصورت پرندوں کےگھونسلے بھی تھے – طوطا فاختہ کبوتر الو نیل کنڈھ چڑیا سب کے سب ہنسی خوشی رہتے تھے – جنگل کی جھاڑیوں پر خوبصورت نیلے پیلے اور سفید پھول لگے ہوئے تھے جن پر رنگ برنگی تتلیاں اڑتی رہتی تھیں لیکن جھاڑیوں کے اندر رینگنے والے خوفناک جانور اپنے بل بنا کر رہتے تھے . چوہے اور چھپکلیاں تو تھیں ہی سانپ اور بچھو بھی ان جھاڑیوں میں رہتے تھے –
گلاب کے پھول اور چمبیلی کے پھول بھی اس جنگل میں اگے ہوئے تھے – پھلدار پیڑوں میں سیب اور خوبانی کے درخت بھی شامل تھے-
جنگل میں ایک چھوٹا سا تالاب تھا جس میں بارش کا پانی جمع رہتا تھا اس تالاب میں رنگ برنگی مچھلیاں اور ایک کچھوا رہتا تھا – جنگل کے جانور اس تالاب سے پانی پیتے تھے اس جنگل میں ایک ہرنی بھی رہتی تھی اور اس کا ایک بچہ بھی تھا جسے ہرنی پیار سے ڈیئر کہتی تھی کیونکہ وہ اس کو بہت ہی پیارا لگتا تھا – ہر ماں باپ کو اپنے بچے پیارے ہی لگتے ہیں ایک دن ہرنی اپنے بچے کو لے کر جنگل کے تالاب پر پانی پینے آئی تو وہاں جنگل کا بادشاہ شیر آگیا . شیر کو بھوک لگی تھی . شیر ہمیشہ تاک میں رہتا کہ کوئی جانور پانی پینےآئے تو وہ اس کا شکار کر کے اپنی بھوک مٹائے شیر ہرنی کو دیکھ کر دھاڑا ہرنی کا بچہ شیر کی دھاڑ سن کر اتنا ڈر گیا کہ تالاب میں گر گیا –
شیر نے ہرنی پر حملہ کر دیا لیکن ہرنی بھاگ کھڑی ہوئی. اب ہرنی آ گےآگے اور شیر پیچھے پیچھے . ہرنی نے شیر کو جنگل میں خوب دوڑایا شیر کو بھوک بھی لگی تھی اور پیاس بھی آ خر تھک گیا اور ایک جگہ بیٹھ کر ہانپنے لگا . ہرنی نے دیکھا کہ شیر سے جان چھوٹ گئی ہے تو وہ دوبارتالاب کے کنارے پہنچی . اس نے دیکھا کہ اس کا ڈیئر تالاب میں ڈبکیاں کھا رہا ہے. وہ بہت پریشان ہوئی کہ کیا کرے . نہ تو ہرنی کو تیرنا آتا تھا اور نہ ہی اس کے بچے کو. ہرنی کے بچے کی ناک اور منہ سے پانی اندر جا رہا تھا .
وہ پاؤں مار رہا تھا لیکن کسی طرح سے بھی تالاب سے نکل نہیں پا رہا تھا . ڈیئر کی یہ حالت دیکھ کر تالاب کی مچھلیاں اس کے گرد جمع ہو گئیں اور انہوں نے مل کر ہرنی کے بچے کو باہر نکالنے کی کوشش کی لیکن مچھلیاں تو خود نازک نازک سی تھی وہ سب مل کر بھی ہرنی کے بچے کو باہر نہ نکال سکیں . پھر سب مچھلیاں مل کر کچھوے کے پاس گئیں جو تالاب کے دوسرے کنارے پرآدھا پانی میں اور آدھا پانی کے باہر لیٹا دھوپ سینک رہا تھا . مچھلیوں نے کچھوے کو ساری بات بتائی اور کہا کہ جلدی چلوہرنی کا بچہ ڈوب رہا ہے اور اس کی جان بچانا بہت ضروری ہے . کچھوا آرام کر رہا تھا ویسے بھی سستی اور کاہلی کچھوے کی عادت بن گئی تھی .
کہنے لگا مچھلیو مجھے آرام کرنے دوہرنی کا بچہ خود ہی نکل جائے گا اور یہ کہہ کر اس نے پھر اپنا سر ریت پر رکھ لیا اورآنکھیں بند کر لیں . مچھلیاں کہنے لگیں اچھے کچھوے پیارے کچھوے اگر ذرا اور دیر ہو گئی تو ہرنی کا بچہ ڈوب جائے گا . اگر تم دوسروں کی مدد نہیں کرو گے تو یہ کوئی اچھی بات نہیں ہوگی . ایک مچھلی نے کہا اور ہاں کچھوے بھائی اللہ تعالی بھی ناراض ہوں گے کہ تم نے ہرنی کے بچے کی مدد کیوں نہیں کی اس کی جان کیوں نہیں بچائی یہ سن کر کچھوا کہنے لگا اچھا اگر یہ بات ہے تو پھر میں چلتا ہوں اس لیے کہ میں اللہ تعالی کی ناراضگی سے بہت ڈرتا ہوں کیونکہ اللہ تعالی نے تو ہم سب کو بنایا ہے ہم سب اس کی مخلوق ہیں . ایک ننھی سی مچھلی پوچھنے لگی مخلوق کے کیا معنی ہوتے ہیں ؟ کچھوا بولا لو اس کو تو مخلوق کے معنی بھی نہیں معلوم . اس کو تم مخلوق کے معنی بتاؤ میں ہرنی کے بچے کو بچاتا ہوں .
ایک بڑی مچھلی نے بتایا کہ میری ننھی پیاری مچھلی – اللہ تعالی خالق ہیں یعنی سب کچھ بنانے والے اور ہم سب مخلوق ہیں یعنی جو کچھ اللہ نے بنایا ہے اسے مخلوق کہتے ہیں ایک مچھلی کہنے لگی لوآپ نے تو پڑھانا شروع کر دیا یہ سکول کا وقت نہیں ہے چلو جلدی سے ہرنی کے بچے کی جان بچائیں .
مچھلیاں اور کچھوا ہرنی کے بچے کے پاس پہنچے تو اس کا غوطے کھا کھا کر برا حال ہو چکا تھا . کچھوے نے پہلے ذرا سا سوچا کہ ڈیئر کو کیسے باہر نکالا جائے پھر ایک ترکیب اس کے ذہن میں آئی تو کچھوا ہرنی کے بچے کے نیچے پہنچا اور اوپر کی طرف زور لگایا کچھ مچھلیوں نے بھی مدد کی ہرنی کے بچے نے بھی ہمت نہ ہاری اور تالاب کے کنارے کے ساتھ اپنے پاؤں جما کر باہر کی طرف نکلنے کی کوشش کرنے لگا ہرنی بھی باہر کھڑی تھی ، اس نے بھی اپنے ڈیئر کے کان کو پکڑ کر باہر کی طرف زور لگایا اس طرح سب نے مل جل کر کوشش کی تو ہرنی کا بچہ تالا اپ سے باہر نکل آیا .
مچھلیوں نے اور کچھوے نے اپنی کامیاب پر خوب تالیاں بجائیں اور خوشی کا اظہار کیا . تالاب سے باہر نکل کر ڈیئر نے سکھ کا سانس لیا . جو ذرا حواس درست ہوئے تو اس نے تالاب کی طرف دیکھا – ہرنی کے بچے نے اپنا اپنا اگلا پاؤں اٹھا کر کچھوے اور مچھلیوں کا شکریہ ادا کیا کچھوے اور مچھلیوں نے اس کو خدا حافظ کہا اور پھر ہرنی اور ہرنی کا بچہ جنگل میں اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئے .
ہرنی کا بچہ سوچتا جا رہا تھا کہ دنیا میں جہاں ظالم شیر رہتا ہے وہیں مچھلیاں اور کچھوے بھی ہیں جو دوسروں کی مدد کرتے ہیں پھر اس نے پختہ ارادہ کیا کہ وہ بھی دوسروں کی مدد کیا کرے گا اور اس کے لیے اپنے آپ کو مضبوط اور طاقتور بنائے گا . اپنے آپ کو مضبوط بنانے کے لیے خوب پھل سبزیاں اور روٹی کھائے گا اور بھاگ بھاگ کر ورزش کرے گا اور خوب پڑھے گا کیونکہ اس کے بابا نے بتایا تھا کہ بہت سارا پڑھ کر کمزور بھی طاقتور بن سکتا ہے .