[ad_1]
ہمیں تو معلوم تھا کہ جبار مرزا ایک عجیب آدمی ہیں کیوں کہ اتنا عرصہ صحافت میں رہ کر نہ سید بنے، نہ افغان، نہ وزیر، نہ محسود، نرے کے نرے مرزا ہی رہے ، ہمارے مرشد کی طرح ۔جو ایک عجب آزاد مرد تھا یا یوں کہیے کہ کاغذ کے کھیت میں قلم کا ہل چلا کر پھول بوتے رہے اورکانٹے کاٹتے رہے لیکن یہ پتہ بالکل نہیں تھا کہ ہماری طرح وہ ٹو ان ون یعنی عجیب کے ساتھ غریب بھی ہیں اور یہ پتہ ہمیں ابھی ابھی چلا ہے کہ جب ہم نے ان کی کتاب ’’صحافتی یادیں‘‘ پڑھی کہ وہ تو ہمارے وہ جڑواں بھائی ہیں جو کبھی زندگی کے میلے میں ہم سے بچھڑ گئے تھے وہ بھی کتاب کے آخر میں ۔ جہاں ہمیں صفحہ تین سو ایک پر ان کے گلے میں ایک لاکٹ ملا اور اس لاکٹ میں جو تصویر بلکہ تصویریں ملیں ویسی تصویریں ہمارے گلے کے لاکٹ میں بھی تھیں اور ہیں ۔
ان دونوں لاکٹوں میں جن ’’دوہیروں‘‘ کی تصویریں ہیں وہ ایسے ہیرو ہیں جو ہمیشہ زیرو سے ہیرو بنتے ہیں اورپھر ہیرو سے زیرو ہوجاتے ہیں ۔ یہ دونوں ہیروں اب کچھ عرصہ سے لاحق ہیں ان میں سے ایک تو زیرو ہوچکا ہے دوسرا نہ جانے کب اورکتنے ہندسوں کو کھانے کے بعد زیرو ہوگا۔
ان ہیروں نے پاکستان کی سیاست کو ایک نیا موڑ دیا ہے جسے کنٹینروں کی سیاست بھی کہتے ہیں کہ پہلے والے ہیرو نے جواب زیروہوکر بلیک بورڈ سے مٹ چکا ہے اس نے پوری قوم کو جادو کے کنٹینر میں بند کر کے دوسرے کے حوالے کیا اوردوسرے نے اس کنٹینر کو دریائے شو کی طرف لڑھکانا شروع کیا ہے ؎
جیا ترے غم کی خاطر تر ے غم میں موت آئی
جہاں ابتدا ہوئی تھی وہیں ختم ہے فسانہ
اگر آپ نے غور کیا ہو (جو آپ کی عادت نہیں ہے ) لیکن بھول چوک بھی تو کبھی کبھی ہوجاتی ہے، ہاں تو اگر آپ سے بھول چوک میں غور سرزد ہوا ہو تو ہم نے ان ہیروں کے ساتھ آدمی یا انسان کا لاحقہ نہیں لگایا اوریہ ہمارے ایک بزرگ کی ہدایت ہے کہ اگر کسی کاذکر کرنا ہو تو صرف ایک نام لیاکرو۔ مثلاً اگر ہم کہیں گے کہ فلاں بڑا ذلیل آدمی ہے تو یہ سراسر اسراف ہے، ذلیل ہی کافی ہے کیوں کہ ایک شخص میں بیک وقت دو لوگ نہیں ہوسکتے ، ایک مرتبہ ہم نے ایک صحافی کے بارے میں جوکہا جو بعد میں وزیر بھی بنا اورمشیر بھی کہ وہ بڑا منافق آدمی ہے تو ہاتھ اٹھا کو بولے…نہیں ، منافق کہہ دیا نا۔
آدمی کہنے کی ضرورت نہیں ۔ تو ہم نے ان ہیروں کو بھی آدمی یا انسان بالکل نہیں کہا ہے کیوں کہ ہمارے ایک دوسرے بزرگ نے کہا ہے کہ کدو کو سبزی ساڑھو (ہم زلف) کو رشتہ دار اورلیڈر کو انسان کہنا احمقوں کاکام ہے ۔جبار مرزا کی اس کتاب میں ان دونوں ہیروں کے بارے میں جو کچھ انھوں نے لکھا ہے پڑھ کر بے ساختہ ہمیں مرشد کاگفتہ یاد آیا کہ ؎
دیکھنا تقریر کی لذت کہ اس نے جو کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
اگر آپ نے ہماری کتاب ’’دیواستبداد یا نیلم پری‘‘ پڑھی ہے تو ٹھیک ہے، نہیں پڑھی ہے تو فوراً پڑھ لیجئیے تو آپ کو لگ پتہ جائے گا کہ اس وقت دنیا بھر میں مسلمانوں اورخصوصاً پاکستان میں جوکچھ بھی ہورہا ہے، اس کے پیچھے کس کاہاتھ ہے اوراس ہاتھ کا مقصد صرف ایک ہے، مسلمانوںسے ایسے ایسے کام کروانا، کہ دنیا مسلمانوں سے متنفر ہوجائے ۔ اوریہ کام صف کے باہر کے لوگ اتنی اچھی طرح نہیں کرپاتے جتنی اچھی صفوں میں موجود بلکہ پہلی صف کے لوگ کر سکتے ہیں۔
چلیے ایک بار پھر ہم آپ کو خلاف معمول خلاف عادت اورخلاف روایت غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔یہ جوسب کچھ ہورہا ہے اس میں سب سے بڑا سوال کس پر اٹھ رہا ہے یااٹھایا جارہا ہے یااٹھانے کی کوشش کی جارہی ہیاسٹیبلشمنٹ پر اورپاکستان کی فوج کس کی آنکھ کا کانٹا ہے ، قریب سے ذرا دوردور تک سوچئیے
پھینکنے والے بڑی دورسے پتھر پھینکیں
اورمیں صرف پڑوسی کے مکان تک سوچوں
خیر چھوڑئیے۔ جب پاکستانی کالانعام کو خود ہی اتنا مرن داشوق ہے تو ہم کون ہوتے ہیں اس عدم استعمال کی ماری ہوئی کھوپڑیوں میں عقل ڈالنے والے جب ان کو خود ہی احساس نہیں ہے کہ کس کس نے کیا کیا ان کے ساتھ، اور یہ خود ہی اسی عطار کے اسی لونڈے سے دوا لے رہے ہیں جس نے یہ ساری بیماریاں ان میں ڈالی ہیں تو پھر ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے پریشانی مول لینے کی۔ جبار مرزا کی ان صحافتی یادوں سے ہمیں ایسا بہت کچھ معلوم ہوا جو ہم نہیں جانتے تھے یاکم جانتے تھے۔ خاص طورپر کچھ مشہور سیاسی اور صحافتی ناموں کے بارے میں کہ
جسے سمجھے تھے انناس وہ عورت نکلی
جبار مرزا کی ان صحافتی یادوں کے بارے میںبہت سے لوگوں نے لکھا کہ یہ صرف ایک شخص کی انفرادی یادیں نہیں بلکہ ہمارے اس بدنصیب ملک کے عہد کی تاریخ بھی اس میں جھلکتی ہے ۔اس بارے میں علامہ عبدالستار عاصم لکھتے ہیں کہ ’’جبار مرزا کی صحافتی یادیں حالات حاضرہ اورگزرے ہوئے لمحوں کا روزنامچہ ہے ،یہ ایک ایسی تاریخ ہے جس پر جتنی بھی داد دی جائے کم ہے ۔یہ ایک مشاہداتی رپورتاژ ہے یہ صحافتی یادیں ذاتی بھی ہیں اورصحافتی بھی عوامی بھی اور اجتماعی بھی ۔
یہ بڑے خاصے کی کتاب ہے اس میں مشاہدہ ہے، دین ہے دھرم ہے ، اپنائیت ہے اورایک ایک چہرے پر کئی چہرے بھی ہیں ، یہ کم وبیش پچاس سال کی تاریخ ہے جس میں نوجوانوں کو زندگی بہتر کرنے کے لیے کئی راہیں کھلتی دکھائی دیں گی۔
[ad_2]
Source link