اس وقت اگر پوری دنیا پر ایک سرسری نگاہ دوڑائی جاے تو معلوم ہوگا کہ آج پوری دنیا مسلمانوں کے پیچھے پڑی ہوئی ہے، ہر محاذ پر صرف اور صرف مسلمانوں ہی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، ہماری پشتوں پر دہشت گردی اور انتہا پسندی کی مہر لگائ جا رہی ہے، ہر چہار جانب سے اسلام اور مسلمانوں کو آتنگواد جیسے ذلت آمیز اور گھٹیا ناموں سے موسوم کیا جا رہا ہے، مختلف زاویہ نظر سے ہمیں بدنام کرنے کی حتی المقدور کوششیں کی جا رہی ہیں۔
اس کام کو کسی صوبائی یا ملکی پئمانہ پر نہیں بلکہ عالمی پئمانے پر انجام دیا جا رہا ہے اور اس ناپاک مہم میں امریکا اور اسرائیل جیسے تمام اسلام دشمن ممالک شامل ہیں ، جو اپنی بنیادی کتابوں کے ذریعہ چھوٹے بچوں کے نازک دلوں میں اسلام دشمنی کا زہر گھول رہے ہیں، جو اپنی تقریروں کے ذریعے نوجوان طبقے کے لوگوں میں اسلام کے خلاف نفرت کا بیج بو رہے ہیں، سوشل میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا یا پھر الیکٹرانک میڈیا،ہر جگہ مسلمانوں ہی کی باتیں ہو رہی ہیں، ہر جگہ مسلمانوں کے مقدس قانون کو ظلم کا نام دیکر ان میں بیجا مداخلت کی ناپاک کوشش کی جا رہی ہے، ہر ڈبیٹ میں ہمیں ہی نشانہ بنایا جاتا ہے، ہر محفل میں حقیقت کی پردہ پوشی کرتے ہوئے ہماری گزشتہ خلافات اور ہماری گزشتہ مسلم حکومتوں کو ظلم اور انتہا پسندی کے ناموں سے جوڈنے کی سعی لا یعنی کی جاتی ہے۔
ان کی ان تمام کالی کرتوتوں کو دیکھ کر اتفاق سمجھنے کی غلطی ہرگز نہ کریں بلکہ یہ ان کے وہ خواب ہیں جو برسوں سے ان کے باطن میں انگڑائیاں لے رہے تھے اور اب رفتہ رفتہ شرمندہ تعبیر کے راستے پر گامزن ہیں۔
ان لوگوں نے اپنے اس ناپاک منصوبے کو کامیاب بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، بلکہ اپنی پوری قوت لگا دی ، پھر خواہ وہ فلمی دنیا ہو یا ٹی وی سیریل ، ہر میدان میں انھوں نے مسلمانوں کو ظالم وجابر اور اشتعال انگیز باور کرانے کی کوشش کی جو کہ عالم آشکار ہے۔
اس کی وضاحت کے لیے زیادہ دور جانے کی حاجت نہیں، نصف صدی سے جو ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کی فلمیں یا ڈرامے ہیں خواہ وہ کسی تاریخ پر مبنی ہوں یا محض افسانہ کے قبیل سے ہوں ، اگر ان کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ فلموں میں بھی ان کی اسلام اور مسلم دشمنی صاف طور پر نظر آتی ہے ۔
خاص طور پر اگر ہم ہندی فلموں کی بات کریں تو معلوم ہوگا کہ ہمارے خلاف بغض وعداوت کی آگ انھیں کس حد اندھا کر چکی ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کی اداکاری کے لیے صرف اور صرف انھیں مسلم نام ہی نظر آتا ہے، ابھی حال ہی میں ایک مسلم دانشور کی تحقیق کے مطابق ایک دو یا تین نہیں بلکہ ہزاروں ایسی فلمیں اور ڈرامے ہیں جن کے زریعے مسلمانوں کو مسلمانوں ہی کا دشمن بنایا جا رہا ہے،
اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ فلموں میں مسلمانوں کے ناموں کو استعمال کرنے سے مسلمانوں کو کیا نقصان ہے؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب ایک شخص کسی فلم کا مشاہدہ کرتا ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو تو اس کہانی کے اندر جسے ہیرو یعنی مظلوموں کا مسیحا، بااخلاق اور خوش طبع دکھایا جاتا ہے وہ شخص اسے نفس الأمر میں بھی ایسا ہی سمجھتا ہے اور جس کو شر انگیز، فتنہ پرور اور ظالم فلمایا جاتا ہے تو مشاہدین کے قلوب واذہان اسے حقیقت میں بھی ویسا ہی سمجھتے ہیں اور یہ بات تو واضح ہے کہ دنیا میں بلا تفریق مذہب وملت زیادہ تر لوگ فلمیں دیکھتے ہیں تو گویا کہ فلموں کے ذریعے مستقل طور پرعوام کی ذہن سازی کی جارہی ہے اور انھیں مسلم سلاطین کے حوالے سے بد ظن کیا جا رہا ہے۔
اس کی ایک مثال 2018 میں ریلیز شدہ فلم پدماوت ہے، جس کو تاریخ پر مبنی ڈرامہ کی طرف منسوب کرکے یقیناً تاریخ کی بے حرمتی کی گئی، یہ فلم محض کذب وافترا پر مشتمل ہے، جس میں ہندوستان کے ایک عظیم حکمران سلطان علاءالدین خلجی کا کردار ادا کیا گیا اور اپنی گھٹیا سازشوں کو بروے کار لاتے ہوئے اسے ایک عیاش، مکار اور ایک آوارہ جو اپنی خواہش نفسانی کی تکمیل کے لئے دوسروں کی ازواج تک کو نشانہ بنانے والا دکھایا گیا ، تاریخ کے مطابق ویسے علاء الدین خلجی مذہبی معاملات میں بہت کمزور تھا اور اس کے علاوہ بھی اس میں چند کمیاں ضرور تھی لیکن جیسا کہ پدماوت فلم میں درشایا گیا وہ اس کے بالکل بر عکس تھا۔
اس کے علاوہ اس زمانے میں جب منگولوں نے حملہ کیا تو علاء الدین خلجی نے بڑی بہادری سے ان کا مقابلہ کیا اور ہندوستان کی حفاظت کی۔ (تاریخ فرشتہ)
اس فلم کے ذریعہ علاءالدین خلجی کی تاریخ کو مسخ کرنے کی ایک بھونڈی سازش کی گی ، جو کہ ناقابل برداشت ہےاور صرف یہ اتفاق نہیں ہے بلکہ عام طور سے مسلم بادشاہوں کو بدنام کرنے کے لیے ایسا کیا جا رہا ہے ۔
مزید بر آں 4دسمبر 2019 کو ریلیز شدہ فلم پانی پت میں بھی تاریخ کے حوالے سے کچھ اسی طرح چھیڑ چھاڑ کر افغانستان کے ایک مسلم اور منصف حکمران سلطان احمد شاہ ابدالی کو دنیاے ظلم و ستم کا بے تاج بادشاہ دکھایا گیا ہے،
معلومات میں مزید اضافہ کے لیے احمد شاہ ابدالی اور اس کی بھارت آمد پر ایک مختصر توضیح اور ازالہ شبہات۔
1757 میں احمد شاہ ابدالی، درانی کو افغانستان کا بادشاہ منتخب کیا گیا، جس نے بہت ہی کم وقت میں بیشتر فتوحات حاصل کی، دوسری جانب بھارت میں مراٹھاوں کے دباؤ میں آکر 1759 ء میں بادشاہ عالمگیر ثاني کو دہلی کے تخت سے معزول کردیا گیا اور پھربھارت میں مراٹھاؤں کا ظلم اس حد تک بڑھ گیا کہ پونا میں ان کے سربراہ نے دہلی جامع مسجد میں مہادیپ کا بت رکھنے اور ہند کے تمام مسجدوں اور مقبروں کو بت خانوں میں تبدیل کرنے کا فرمان جاری کیا، اس نازک ترین ماحول میں بھارت کے شاہ ولی اللہ نواب شجاع الدولہ اور دوسرے بعض امن پسند حضرات نے سلطان احمد شاہ ابدالی کو افغانستان ایک لکھا اور مدد طلب کی، جس کے نتیجے میں 1761 کو وہ اسی ہزار کا لشکر لیکر بھارت آیا اور پانی پت کی سرزمین پر مراٹھاؤں کو بدترین شکست کا مزہ چکھایا۔
مؤرخین کے مطابق یہ اصل واقعہ ہے لیکن اس فلم پانی پت میں حقیقت کا برعکس درشایا گیا ہے،یعنی احمد شاہ ابدالی کو ظالم وجابر اور ایک بہت بڑا سفاک، اور ان کے مقابل مراٹھاؤں کو عدل و انصاف کا پیکر اور مظلوم دکھا کر پھر ایک مسلم سلطان کو لوگوں کی نظر میں گرانے کی کوشش کی گئی۔
اس کے علاوہ آج کے ہندوستان میں مسلم حکمراں بابر ، شاہ جہاں اور ان کے علاوہ مسلم حکمرانون کے ظالم وجابر ہونے کی خوب افواہیں پھیلائی جارہی ہیں اور ان کاموں کو کتاب، نیوز پیپر، سوشل میڈیا وغیرہ کے ذریعہ بڑی ہی تیزی سے انجام دیا جا رہا ہے، جن کے ذریعے دنیا کے سامنے ہمیں ذلیل کرکے اور ہماری اسلامی حکومتوں کو بدنام کرکے وہ دنیا بھر میں اسلام کی شبیہ کو مجروح کرنا چاہتے ہیں ۔
لہذا ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی نسل نو کو اپنی تاریخ کے حوالے سے آگاہ کریں ، انھیں مسلم سلاطین کی خدمات کے بارے میں بتائیں تاکہ ان کے ذہن و دماغ میں سوشل میڈیا اور فلموں کے ذریعہ جو بھی شکوک و شبہات پیدا کیے جارہے ہیں ان کا سد باب کیا جاسکے ۔
(اللہ ہمیں ان کے مکر وفریب سے بچاۓ )
از قلم۔
محمد احمد حسن امجدی۔
ریسرچ اسکالر۔البرکات اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ علی گڑھ۔ 8840061391 ۔