[ad_1]
میں نے فوراً فون اٹھا لیا‘ یہ میرے پرانے مہربان ہیں‘ کھرب پتی ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر ان کی دولت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے‘ مجھے رات لیٹ ان کا فون آیا‘ میں نے پریشانی میں فون اٹھایا تو وہ دوسری طرف قہقہے لگا رہے تھے‘ ان کا کہنا تھا ’’ہماری شرط لگی ہوئی ہے‘ میں نے ان سے کہا‘ یہ بات تمہیں ضرور پتا ہو گی جب کہ شاہ جی نہیں مان رہے لہٰذا ہم تم سے ایک سوال کریں گے اور تم اس کا فوراً جواب دو گے‘ بولو کیا منظور ہے؟‘‘ میں نے کہا’’ منظور ہے لیکن شرط کتنے کی ہے؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’دس دس لاکھ روپے کی‘‘ میں نے پوچھا ’’اور اس میں مجھے کتنے ملیں گے؟‘‘ انھوں نے قہقہہ لگا کر جواب دیا ’’سارے تمہارے‘‘ میں نے بھی قہقہہ لگایا اور سوال پوچھ لیا‘ ان کا کہنا تھا ’’یہ بتاؤ ہم گھروں میں مہمانوں کے لیے جو واش روم بناتے ہیں اسے پاؤڈر روم کیوں کہا جاتا ہے؟‘‘ میں نے قہقہہ لگا کر کہا ’’بھائی جان آپ شرط جیت گئے ہیں۔
آپ کو مبارک ہو‘‘ دوسری طرف سے بلند قہقہوں کی آوازیں آنے لگیں‘ میں نے انھیں بتایا ’’برطانیہ میں بادشاہ اور ملکہ کے ملاقاتیوں کو ججز کی طرح سفید بالوں کی وِگ پہننا پڑتی تھی‘ اس زمانے میں اچھی وِگیں نہیں ہوتی تھیں‘ سفید بالوں کے نیچے چمڑے کا استر ہوتا تھا اور چمڑے اور سفید بالوں دونوں سے بو آتی تھی چناں چہ ملاقاتیوں کو بادشاہ اور ملکہ سے ملانے سے پہلے ایک خاص کمرے میں لے جایا جاتا تھا‘ وہاں خوشبو دار پاؤڈر رکھا ہوتا تھا‘ ملاقاتی وِگ کے اندر پاؤڈر چھڑک کر اسے خوشبو دار بناتے تھے اور اس کے بعد گاؤن پر پرفیوم لگا کر دربار میں حاضر ہو جاتے تھے۔
وِگ پر پاؤڈر ہاتھ سے لگایا جاتا تھا چناں چہ اسے دھونے کے لیے وہاں ایک سنک بھی ہوتا تھا‘ دربار میں بعض اوقات ملاقاتیوں کو دیر تک بیٹھنا پڑ جاتا تھا‘ انھیں اس دوران واش روم کی ضرورت بھی پڑ سکتی تھی جب کہ ملکہ اور بادشاہ کی موجودگی میں کسی شخص کا دربار سے نکلنا ممکن نہیں تھا چناں چہ اس کمرہ خاص میں ایک کموڈ کم یورینر بھی لگا دیا گیا تاکہ ملاقاتی ہلکے ہو کر دربار میں جائیں‘ شاہی محل میں اس کمرے کو پاؤڈر روم کہا جاتا تھا‘ بادشاہوں کی عادتیں اور ادائیں کیوں کہ عوام کے لیے فیشن ہوتی ہیں لہٰذا پاؤڈر روم بھی فیشن بن گیا‘ یہ اب پوری دنیا میں استعمال ہوتا ہے‘ وِگوں اور پاؤڈر کی ضرورت نہیں رہی لیکن پاؤڈر روم بہرحال موجود ہے‘‘ میں خاموش ہو گیا‘ فون کی دوسری طرف تالیاں بجنے لگیں۔
میں تالیوں کی آواز کے ساتھ ہی اداس بھی ہو گیا‘ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ میں نے ان آوازوں کے لیے بڑا لمبا اور مشکل سفر کیا تھا‘ دنیا میں کچھ لوگ چل کر اور کچھ دوڑ کر منزل تک پہنچتے ہیں جب کہ میں نے یہ سفر زمین پر گھسٹ کر باقاعدہ کرالنگ کر کے طے کیا تھا۔سادہ لوح لوگ مجھے عالم فاضل سمجھتے ہیں جب کہ میں فاضل ہوں اور نہ ہی عالم‘ میرے پاس صرف پاؤڈر روم جیسی فضول اور لایعنی معلومات کا انبار ہے‘ اللہ تعالیٰ نے حیران کن یادداشت دی لہٰذا بچپن سے جو کچھ پڑھا‘ جو کچھ دیکھا اور جو کچھ سنا وہ ذہن کی ہارڈ ڈرائیو میں جمع ہو گیا اور میں ایک چھوٹی سی ’’یو ایس بی‘‘ بن گیا‘ یہ سب کچھ کیسے ہوا؟ اس کی بڑی وجہ کتابیں ہیں‘ میں بچپن میں کم زور سا کالا کلوٹا بچہ تھا‘ احساس کمتری جڑوں تک پھیلا ہوا تھا‘ لوگوں کو دیکھ کر ڈر جاتا تھا‘ بول نہیں سکتا تھا‘ لوگوں کو فیس بھی نہیں کر پاتا تھا‘ اس صورت حال میں کتابیں میری پناہ گاہ بن گئیں اور میں ان میں چھپ گیا‘ مجھے بچپن میں جو بھی ملا میں وہ پڑھ گیا‘ ہمارے شہر میں دو پرائیویٹ لائبریریاں تھیں۔
میں گھر کے ٹین‘ ڈبے اور بوتلیں بیچ کر پیسے جمع کرتا تھا اور کرائے پر کتابیں لے آتا تھا‘ کرایہ دنوں کے حساب سے ہوتا تھا چناں چہ میں دن رات ایک کر کے کتاب ختم کر دیتا تھا‘ بک اسٹالز پر کھڑے کھڑے میگزینز بھی پڑھ جاتا تھا‘ میرا خاندان دیہاتی اور ان پڑھ تھا‘ میرے ایک چچا بے انتہا ظالم تھے‘ اللہ تعالیٰ انھیں غریق جنت کرے لیکن مرحوم نے مجھے ذہنی‘ جسمانی اور روحانی طور پر تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی‘ اسے کسی نے بتا دیا یہ کتابیں فحش ہوتی ہیں اور تمہارا لڑکا خراب ہو رہا ہے لہٰذا میرا چچا روزانہ میرے بستے اور سرہانے کی تلاشی لے کر ناول سائز کی تمام کتابیں اکٹھی کرتا تھا اور انھیں جلا کر اپنی چلم تازہ کر لیتا تھا‘ پنجابی میں چلم کو ٹوپی کہتے ہیں‘ میرے چچا کی زیادہ تر ٹوپیاں میری کسی نہ کسی کتاب کا جنازہ ہوتی تھیں‘ میں روز روتا تھا اور تڑپتا تھا اور میرا چچا حقہ پیتا تھا اور میرے تڑپنے اور رونے سے لطف اندوز ہوتا تھا‘ میرے والد اپنے بھائیوں کے زیر اثر تھے‘ وہ ان کی ہر بات پر یقین کرتے تھے چناں چہ والد بھی میرا موقف سنے بغیر مجھے پھینٹا لگا دیتے تھے۔
کتاب دشمنی کا پہلا لیسن میں نے گھر سے لیا تھا مگر شاید میرا خمیر ضد سے اٹھا تھا‘ میں ’’علاج بالضد‘‘ کا قائل تھا یا پھر کتاب کے علاوہ میری کوئی پناہ گاہ نہیں تھی لہٰذا میں ڈٹا رہا لیکن آپ یقین کریں میں نے پوری زندگی اپنی اس ضد کی بڑی بھاری قیمت ادا کی‘ میں کتابوں کی وجہ سے اسکول میں بھی ایلین تھا‘ میرے کلاس فیلو بھی میرا مذاق اڑاتے تھے اور میرے استاد بھی‘ وہ زمانہ کتابوں کے معاملے میں آج سے بہتر تھا مگر اس کے باوجود اس دور میں بھی کتابیں پڑھنے والوں کو پروفیسر‘ کیڑا‘ مچھر اور گنڈویا کہا جاتا تھا‘مجھے بھی میرے استاد اور کلاس فیلوز یہی کہتے تھے‘ وہ بھی کتابیں چھین کر پھاڑ دیتے تھے یا نالی میں پھینک دیتے تھے‘ میں ڈائجسٹ پڑھنے کی لت میں بھی مبتلا تھا‘ میرے استاد میرے بستے سے ڈائجسٹ نکال کر ہیڈ ماسٹر کو دے دیتے تھے اور وہ مجھے سرعام کان پکڑا دیتے تھے‘ میرے محلے دار یہ خبر شام تک میرے چچا کو پہنچا دیتے تھے اور اس کے بعد میرے ساتھ جو کچھ ہوتا تھا میں آج 55 سال کی عمر میں بھی جب یاد کرتا ہوں تو میری آنکھیں بھر آتی ہیں اور میں بے چینی سے کمرے میں چکر لگانے لگتا ہوں۔
میں کالج میں بھی غیرنصابی کتابیں پڑھنے والا واحد طالب علم تھا‘ ہمارے کالج کی لائبریری بہت شان دار تھی مگر اس زمانے میں بھی کتابیں پڑھنے کا رجحان نہیں تھا‘ اچھے طالب علم سلیبس کی کتابیں پڑھتے تھے‘ نوٹس کو رٹا لگاتے تھے اور برآمدوں میں ٹہل ٹہل کر نوٹس دہراتے تھے‘ دوسرے درجے کے طالب علم کرکٹ‘ ہاکی اور بیڈمنٹن کھیلتے تھے جب کہ تیسرے درجے کے طالب علم وی سی آر اور سینماؤں میں فلمیں دیکھتے تھے‘ ہمارے زمانے میں وی سی آر آ چکا تھا‘ نوجوان کرائے پر وی سی آر لیتے تھے اور آنکھوں پر برف رکھ کر ایک دن میں چار چار فلمیں دیکھتے تھے۔
ہماری فلم انڈسٹری اس وقت آخری ہچکولے لے رہی تھی‘ سینماؤں میں غیرمعیاری فلمیں لگتی تھیں اور تیسرے درجے کے طالب علم وہ دیکھتے تھے‘ سگریٹ‘ شراب اور چرس پیتے تھے‘ لڑکیوں کے کالجز کے چکر لگاتے تھے اور تھوڑی بہت چوری چکاری اور بدمعاشی کی پریکٹس کرتے تھے‘ میں بدقسمتی سے ان تینوں کیٹگریز میں نہیں آتا تھا‘ میں صرف کتابیں پڑھتا تھا اور اس جرم میں تینوں قسم کے طالب علموں سے بے عزتی کراتا تھا‘ استاد بھی مجھے ناپسند کرتے تھے‘ وہ مجھے شیخی خور اور اوور اسمارٹ کہتے تھے‘ اس کی وجہ یہ تھی یہ جب نیوٹن کے تیسرے قانون کے بارے میں پوچھتے تھے تو میں ساتھ ہی نیوٹن کی بیک گراؤنڈ بھی لکھ دیتا تھا‘ میری یہ جسارت انھیں اچھی نہیں لگتی تھی چناں چہ یہ میرا پیپر کلاس میں پڑھتے تھے‘ خود بھی قہقہے لگاتے تھے اور میرے کلاس فیلوز بھی‘ وہ مجھے یہ مشورہ بھی دیتے تھے تم سائنس کے بجائے آرٹس جوائن کرو اور شاعری کیا کرو‘ سائنس تمہارے بس کی بات نہیں جب کہ مجھے سائنس پڑھنے کا شوق تھا‘ اس بے عزتی‘ پروپیگنڈے اور ’’شوق کشی‘‘ کی وجہ سے میں ایف ایس سی میں فیل ہو گیا‘ والد کی مار سے ڈرتا تھا لہٰذا گجرات سے بھاگ کر لاہور آ گیا‘ پرائیویٹ ایف اے کیا۔
ہومیو پیتھی میں داخلہ لے لیا‘ کیوں لیا؟ میں آج تک وجہ نہیں سمجھ سکا‘ ایف اے میں نمبر اچھے تھے‘ پہلے گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا‘ وہاں میرے پینڈو حلیے کی وجہ سے ٹرولنگ ہوئی تو ایف سی کالج میں چلا گیا‘ یہ اس زمانے میں اشرافیہ کا کالج تھا‘ لاہور کے اعلیٰ خاندانوں کے چشم و چراغ اس میں پڑھتے تھے‘ میں میرٹ کی وجہ سے داخل تو ہوگیا مگر کالج کا ماحول میرے سماجی اور نفسیاتی لیول سے بہت اونچا تھا‘ میں کتابیں بیگ میں ڈال کر کالج آتا تھا اور آخری بینچ کے آخری کونے میں بیٹھ جاتا تھا‘ وہ بی اے میں صحافت کا پہلا بیچ تھا‘ ہمارے استاد ورکنگ جرنلسٹ تھے۔
وہ پنجاب یونیورسٹی سے پرانے نوٹس لے آئے تھے اور انھوں نے یہ ایمان کی طرح طالب علموں کے لیے لازم قرار دے دیے تھے اگر کوئی ان سے ایک سطر بھی باہر نکلنے کی کوشش کرتا تھا تو وہ میرے چچا بن جاتے تھے‘ میں ایک آدھ بار یہ جسارت کر بیٹھا‘ میں مولانا ظفر علی خان کے بارے میں وہ لکھ بیٹھا جو ہمارے استاد کے علمی خزانے سے باہر تھا چناں چہ انھوں نے پوری کلاس کے سامنے میری کلاس لے لی‘ کلاس کے آخر میں انھوں نے میرا نام مولانا ظفر علی خان رکھ دیا‘ کلاس فیلوز کو یہ نام پسند آگیا اور انھوں نے مجھے مولانا کہنا شروع کر دیا جس کے بعد میں بے عزتی اور احساس کمتری کے دوزخ کے آخری درجے پر آ گرا۔ (جاری ہے)
[ad_2]
Source link