[ad_1]
فلسطین کے لئے زبانی ہمدردی نہیں بلکہ عملی اقدام کی ضرورت
آج علی الصباح ایک دلخراش ویڈیو دیکھ کر میرا دل غم واندوہ سے پھٹ گیا اور آنکھیں بے تحاشا نم ہو گئیں۔ ویڈیو میں ایک معصوم فلسطینی بچی شدت پیاس کی وجہ سے ایک پانی کی گاڑی میں لگے ہوئے نل میں انگلیاں ڈال کر انگلیاں چوس رہی ہے۔ کبھی وہ نل سے منہ لگا کر پانی کی حسرت میں تڑپ رہی ہے۔ خدایا غزہ کے مسلمانوں کی حفاظت فرما۔ ظالموں کو کیفرکردار تک پہنچا۔ ہم صرف مضامین ہی لکھتے رہ گئے۔ اسرائیلی درندے غزہ کو معصوم اور بے گناہ بچوں کا شہر خموشاں بنانے میں تلے ہوئے ہیں۔ پورے اسلامی ممالک کے حکمران اپنے عیش کوشی میں چور ہیں۔ انہیں نہ غزہ کے بے گناہ ومعصوم بچوں کی فکر نہ مظلوم عورتوں کا درد۔ نہ نوجوان کے لہو کی قدر و قیمت۔ وہیں اردو اخبارات دیکھ کر دل کو تھوڑی تسلی ہو جاتی ہے کہ ہندوستان والے بھلے کچھ کر نہیں رہے ہیں لیکن قلمی جہاد ضرور کر رہے ہیں۔ غزہ اور فلسطینی مسلمانوں کے درد کو سمجھ کر دوسروں کے دل میں بھی اتارنے کا کام ضرور کر رہے ہیں۔ ہندوستان میں مسلسل احتجاجات ہو رہے ہیں۔ اسرائیلی مصنوعات کی بائیکاٹ کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔ لیکن جب عملی طور پر جائزہ لیا جائے تو نتیجہ زیرو بٹے سناٹا ہے۔
زمینی حقائق کچھ اور ہی ہیں۔ جب مصنوعات کی بات ہوتی ہیں تو اکثر وبیشتر مسلمان اسرائیلی مصنوعات کے بغیر زندگی گزار بھی نہیں سکتے کہنے کے لیے سب کہتے ضرور ہیں۔ ہم بائیکاٹ کے مخالف نہیں ہیں بلکہ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ صرف بائیکاٹ کی باتیں قلم وقرطاس تک محدود نہیں ہونی چاہیے بلکہ عملی طور پر اس کے لیے مضبوط و ٹھوس قدم اٹھانے کی سخت ضرورت بھی ہے۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ جب کبھی مسلمانوں پر مصیبت ٹوٹ پڑتی ہے تو اس تک مسلمانوں کے اندر کافی بیداری اور حساسیت رہتی ہے جیسے ہی وہ مصیبت دور ہوتی ہے تو پھر سب کچھ فراموش کردیا جاتاہے۔ جوش و ولولہ بھی سرد پڑجاتے ہیں۔ پھر کیا وہی غفلت والی پرانی زندگی۔ ناخواندگی کے دلدل میں دن بدن غرق ہوتے رہتے ہیں۔
آج جو بھی فلسطینی مسلمانوں اور غزہ کے معصوم بچوں کے سلسلے میں جو کچھ ہورہا ہے وہ سب محض زبانی فضول خرچی اور زبانی ہمدردی ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ غزہ کے شہیدوں کو ہماری زبانی جمع فضول خرچی کی ضرورت نہیں بلکہ انہیں ہماری عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہ بڑا ہی سنہرا موقع ہے کہ اسلامی ممالک میں بسنے والے مخیر وصاحب ثروت حضرات اپنی تجارت کو فروغ دیتے ہوئے اسرائیلی مصنوعات کا بدیل پیش کریں۔ تاکہ بائیکاٹ کی جو باتیں کی جارہی ہیں اسے عملی جامہ پہنایا جائیں۔ اس سے دو فائدے ہونگے ایک مسلم تجارت کا فروغ وارتقاء دوسرا اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ جس سے اسرائیل مالی و اقتصادی طور پر کمزور ہو جائے گا ان شاء اللہ۔ جب وہ درندہ صفت اسرائیل مالی اعتبار سے کمزور ولاغر ہو جائے گا تو پھر فلسطینی مسلمانوں پر حملے کی رفتار بھی کم ہوتی جائے گی۔
عرب حکمران سے تو کوئی امید نہیں کی جاسکتی۔ وہ تو خفیہ طور پر اسرائیل کو مدد ہی نہیں بلکہ فلسطینی مسلمانوں پر حملے اور اب نیو کلیر حملے کے لیے بھی ہتھیار فراہم کر رہے ہیں۔ مغربی تہذیب کے دلدادوں اور اسلام کے سوداگروں سے کیا امیدیں وابستہ ہو سکتی ہیں۔ وہ شروع ہی سے دولت کے نشے میں چور عیاشیاں کرتے رہے ہیں انہیں شباب وکباب کی لت پڑ چکی ہے۔ اور جتنے اسلام کے نام پر حکومتیں قائم ہیں وہ سب کے سب صرف زبانی ہمدردیاں اور فضول بیانات دئیے جارہے ہیں۔ ان بیانات اور زبانی ہمدردی سے فلسطینی نہتے مسلمانوں کو کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ اس لیے ہم ان تمام اہلیان اسلام سے اپیل کرتے ہیں کہ اگر ذرا برابر بھی ان معصوم وبے گناہ بچوں پر ہمدردی ہوتو اسرائیل کو فلسطین کی پاک دھرتی سے صفایا کرنے کی منصوبہ بندیاں کریں اور ان منصوبہ بند پلان کے مطابق عمل کریں تو وہ دن دور نہیں کہ یہ اسرائیلی وباء فلسطین کی مقدس سرزمین سے نیست ونابود ہوجائیں گے۔
فلسطین کے غزہ میں یرغمال اور مارے جانے والے اکثر بے گناہ بچے، عورتیں اور بوڑھے اشخاص ہیں۔ جنہیں نہ حماس سے تعلق نہ کسی جنگی تنظمیوں سے پھر بھی وہ اسرائیل کے ظلم و ستم کے شکار ہوکر موت کے آغوش میں سو رہے ہیں۔
ستم بالائے ستم یہ کہ کچھ بے شرم لوگ مظلوم فلسطینیوں پر دہشت گردی کا بھی بے جا الزام لگاتے تھکتے نہیں ہم کہتے ہیں کہ 75 سال سے اسرائیلی درندے مظلوم فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں اندھا دھند بمباری کرکے ہزاروں پریواروں کو بے گھر کردئے۔ لا تعداد فلک بوس عمارتوں کو پیہم بمباریوں سے زمین بوس کردئے۔ خورد ونوش کے اشیاء روک دئیے گئے۔ پھر بھی ان ظالم وجابر اسرائیل پر دہشت گردی کا دھبہ تک نہیں۔
تاریخی حقائق کے مطابق مظلوم فلسطینیوں کو اپنی زمین کی حفاظت کرنے اور ان پر کئے جانے والے حملوں کی مزاحمت کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔کچھ مسلم حکمران فلسطینیوں کے شہداء پر گھڑیالی آنسو بہاتے ہیں پھر وہی اسرائیل کی حمایت کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔
ہم اپنے اس مضمون کو اپنے ایک مشاہدہ سے اختتام کی منزل پر پہنچانا چاہتے ہیں وہ یہ کہ پندرہ بیس دن پہلے ہم کچھ احباب کی کوششوں اور محبتوں سے ہمیں دبی جانے کا موقع ملا مسلسل دو جمعہ وہیں پر ادا کئے۔ افسوس اس بات کہ خطباء نے نہ فلسطین پر کئے جانے والے مظالم کا ذکر نہ ان کے لیے دعا۔ یہ کسی جمہوری ملک کی بات نہیں بلکہ خالص اسلامی سلطنت کی بات ہے۔ لیکن اس کے بر خلاف ہندوستان الحمد للہ ہر مسجد میں چاہے جو بھی مکتب فکر کی مسجد ہو وہاں ہر جمعہ بلکہ ہر نماز بعد فلسطینی مسلمانوں کے لیے دعائیں ہوتی ہیں۔ یہی غالباً تمام اسلامی ممالک کے ہیں۔ اس لیے ہم نے کہا کہ ان عرب حکمرانوں سے امید رکھنا بیکار ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اسرائیل کو مالی اور اقتصادی اعتبار سے کمزور وناتواں کرنے کی منصوبہ بندی کریں اور عملی طور پر ظلم کو روکنے کی عملی کوشش کریں دعا کے ساتھ ساتھ دوا بھی کرتے رہیں۔ ہمارے روزمرہ کی مصنوعات کو فروغ دینے کی بھی بھرپور کوشش کریں جتنا ہو سکیں اسرائیلی مصنوعات سے پرہیز کریں تو وہ دن دور نہیں کہ اسرائیل عالمی تجارتی سرگرمیوں میں کمزور ہوکر اپنے وجود کے لیے تڑپتا بلکتا رہ جائے گا۔ اللہ کرے کہ وہ دن ہمیں دیکھنا نصیب ہو۔ خدا ان اسرائیلی درندوں سے ارض مقدس کو پاک کرے آمین
[ad_2]
Source link