اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے وزیر اعظم محمد شہباز شریف کے خطاب نے میاں محمد نواز شریف کے مشرق وسطیٰ امن مشن کی یاد تازہ کر دی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ 33 برس کے بعد مشرق وسطی ایک بار پھر تباہی کے اُسی دہانے پر جا کھڑا نہیں ہوا بلکہ اس کی تباہ کاری اور سنگینی میں ہزار گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ وہ اگست 1991 کے دن تھے۔ ان دنوں مشرقِ وسطی پر آتش و آہن کی برسات تھی۔ فضا میں میزائل اڑتے تھے اور جہاز بم برساتے تھے، وزیر اعظم نواز شریف نے ان ہی حالات میں چھ ملکوں کا دورہ کیا جس کے نتیجے میں بھڑکتی ہوئی آگ بہ تدریج ٹھندی پڑ گئی اور وہ مسلم امّہ میں ہیرو بن کر ابھرے۔ اب پاکستان کے وزیر اعظم ان کے بھائی ہیں، مشرق وسطیٰ اس سے بھی بڑھ کر بے چین ہے اور کوئی نہیں ہے جواِس بھڑکتی ہوئی آگ پر پانی ڈال سکے۔ اس مشکل صورت حال میں عالم اسلام کے دکھوں اور فرزندانِ اسلام کی نمائندگی کا اعزاز وزیر اعظم شہباز شریف کے حصے میں آیا۔ اقوام متحدہ میں انھوں نے مسلم دنیا کے احساسات کی نمائندگی اس جذبے کے ساتھ کی کہ ان کی تقریر کا شمار دنیا میں سب سے زیادہ سنی جانے والی تقریروں میں کیا گیا۔ یہ بھی ایک اعزاز ہے، ایک ایسا اعزاز جس کا حصول زور بازو سے نہیں قسمت سے ملتا ہے۔ اقبال نے غلط نہیں کہا تھا ع
جس کا عمل ہے بے غرض، اس کی جزا کچھ اور ہے۔
لوگ اپنی دانست میں عالم اسلام کے لیڈر بنتے رہ گئے لیکن قدرت نے عزت کسی اور کو بخش دی۔ اس کے بعد میاں شہباز شریف صاحب کی ذمے داریوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ پاکستان کے داخلی حالات ان دنوں سازگار نہیں ہیں۔ یہ صرف پی ٹی آئی اور اس کے بانی نہیں ہیں جو اپنے سیاسی مفادات اور اقتدار کی خاطر ہر حد سے گزر جانے پر تلے بیٹھے ہیں بلکہ ان کج ادائیوں میں کچھ ایسی بیرونی طاقتیں بھی شامل ہو چکی ہیں جنھیں پاکستان کی ترقی اور خوش حالی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ پاکستان جب بھی اپنی آزمائشوں پر قابو پا کر جست بھرنے کو تیار ہوتا ہے، یہ طاقتیں کسی نہ کسی طرح دام ہم رنگ زمیں بچھا دیتی ہیں جیسے احتساب اور ترقی کے دھوکے میں 2014 ء میں دھرنے ابتدا کی گئی۔ اس کے بعد پاکستان کی قسمت میں پتھر پڑتے ہی چلے گئے۔ اب اتنے طویل عرصے کے بعد پاکستان کے عوام نے اپنے عزم و استقلال سے اپنی مشکلات پر کسی قدر قابو پایا ہے اور وہ آنے والے دنوں میں اپنے خوابوں کی تعبیر دیکھ رہی ہے تو یہی قوتیں ایک بار اپنے پرانے مہروں کے ساتھ آکھڑی ہوئی ہیں۔ آٹھ دس برس پہلے یہ مہرے جب اقتصادی راہ داری کا منصوبہ لپیٹ دینے کے لیے کھڑے کیے گئے تھے، اس زمانے میں یہ طاقتیں اتنی تنگی ہو کر سامنے نہیں آئی تھیں بلکہ کسی قدر پردے میں تھیں لیکن اس بار یہ پردہ بھی اٹھا دیا گیا ہے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ عین اس وقت جب اسرائیل غزہ کے مظلوموں کے علاوہ لبنان، شام اور یمن جیسے ملکوں پر چڑھائی کر رہا ہے، عین اسی وقت اسرائیلی اخبارات عمران خان کے حق میں بھی مہم چلا رہے ہیں اور عالمی طاقتوں پر زور دے رہے ہیں کہ ہمارے منصوبوں کی تکمیل کے لیے یہ شخص ناگزیر ہے لہٰذا ، اقتدار میں اس کی واپسی کے سر دھڑ کی بازی لگا دی جائے۔
ایسی صورت حال میں وزیر اعظم پاکستان پر دوہری ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ ایک یہ کہ وہ عالمی سازشوں سے پاکستان کو بھی محفوظ رکھیں اور دوسرے مشرق وسطیٰ کے عوام کو اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کی چیرہ دستیوں سے بھی بچائیں۔ یہ گویا چومکھی لڑائی ہے۔ پاکستان اور مشرق وسطی کے دشمنوں میں اب کوئی فرق نہیں رہا ۔
یہ درست ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر غزہ کی جنگ کے سلسلے میں اسلامی دنیا اور اسرائیلی جارحیت کو بین الاقوامی فورموں خاص طور پر بین الاقوامی عدالت انصاف میں بے نقاب کرنے والے ملکوں کے اجلاس ہوئے ہیں اور انھوں نے اس ضمن میں اکٹھے پیش رفت کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن ان سرگرمیوں کو مہمیز دینے کی ضرورت ہے۔ قدرت نے یہ ذمے داری شہباز شریف کے سپرد کر دی ہے۔ توقع رکھنی چاہیے کہ وہ آئندہ ڈیڑھ دو ہفتوں میں داخلی سیاسی چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کے بعد بالکل میاں نواز شریف صاحب کی طرح امن مشن پر نکلیں گے۔ ایران کے میزائل حملے کے بعد تو یہ مزید ضروری ہو گیا ہے تاکہ جنگ مزید پھیل کر خطے کو جھلسا نہ دے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ایران کے ردعمل نے واضح کر دیا ہے کہ اب خطے کی طاقتیں جیسے کو تیسا کہ ذہنی کیفیت میں جا چکی ہیں جب ایسا ہو جاتا ہے تو فہم و فراست رخصت ہو جاتی ہے۔ پاکستان اس کا متحمل ہے ہو سکتا ہے اور نہ اس کا یہ مزاج ہے ۔ وزیر اعظم کو چاہیے کہ وہ او آئی سی کے اجلاس کی ریکوزیشن دیں۔ ممکن ہو سکے تو یہ اجلاس پاکستان میں ہی بلایا جائے تا کہ مسلم امہ پوری یک سوئی کے ساتھ امن عالم کو تہہ و بالا کر دینے والے مسئلے سے نمٹنے کے لیے پورے اتحاد کے ساتھ اقدامات کر سکے۔ اقوام متحدہ سے خطاب سے وزیر اعظم تقریر سے جو امن مشن شروع ہوا ہے، اس کا اگلا اور منطقی مرحلہ یہی ہے تاکہ اسرائیل کے خلاف ایک بین الاقوامی محاذ تشکیل دیا جا سکے۔ یہ سرگرمی مشرق وسطیٰ کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے لیے تو ضروری ہے ہی لیکن بانی پی ٹی آئی کے ساتھ اسرائیل کے اظہار یک جہتی کے بعد یہ پاکستان کے استحکام کے لیے بھی ضروری ہو گیا ہے۔
قاسمی صاحب کا ‘ معاصر’
ایک زمانہ تھا جب پاکستان پر علم و ادب کی حکمرانی تھی۔ اس قلمرو کی قیادت بلند قامت ادیبوں کے پرچے کیا کرتے تھے۔ فنون، اوراق، سیپ اور بہت سے دوسرے جلیل القدر ادبی پرچے۔ کچھ بزرگ ادیب اس دنیا سے کیا اٹھے، ہمارے ادبی منظر نامے پر غبار چھا گیا۔ ایسا نہیں ہے کہ ادب نے بھی آخری سانس لے لی۔ ادیب اور شاعر سخت جان ہوتے ہیں۔ زمانے کی کج ادائی جتنی بھی بڑھ جائے، وہ اپنی فکر کا دیا جلائے رکھتے ہیں۔ صرف ان ادیبوں کی آواز دب چکی تھی کیوں کہ انھیں پلیٹ فارم مہیا کرنے والے پرچے نہیں رہے تھے۔ مخدومی عطا الحق قاسمی ہماری اسی ادبی روایت کا ستون ہیں جنھوں نے اپنی بھاری بھرکم شخصیت اور کالم نگاری جیسی صحافتی صنف میں بلند مقام رکھنے کے باوجود ادب کے ساتھ رشتے کو کبھی کمزور نہیں ہونے دیا۔ ان کا سہ ماہی ادبی پرچہ ‘ معاصر’ ان کی شخصیت کے اسی پہلو کی ترجمانی کرتا ہے۔
قاسمی صاحب نے یہ پرچہ قد آور پرچوں کے زمانے میں جاری کیا اور اسے منفرد شناخت دی۔ ماضی میں’ معاصر’ کا چاند کی طرح طلوع و غروب رہا ہے لیکن حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ اس کی زندگی برقرار رہی۔ دو تین برس ہوتے ہیں، قاسمی صاحب نے پرچے کی اشاعت نو کی تھی لیکن کچھ ملک کے حالات ایسے تھے اور کچھ معیشت کی زبوں حالی تھی، ایک پرچے کی اشاعت کے بعد یہ سلسلہ رک گیا۔ پرچے کی اشاعت رکی ضرور لیکن قاسمی صاحب کا جذبہ جواں رہا۔ یہ ان کے اسی عزم کا نتیجہ ہے کہ ‘ معاصر’ آج پھر ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ پرچہ صرف صوری اعتبار سے ہی دیدہ زیب نہیں ہے بلکہ معنوی اعتبار سے بھی غیر معمولی ہے۔ اس محنت میں انھیں ممتاز شاعر اور نقاد اقتدار جاوید صاحب اور ڈاکٹر عائشہ عظیم صاحبہ کی بہ طور مدیر اور نائب مدیر خدمات حاصل رہی ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ صرف قیادت ہی قد آور نہیں ہے بلکہ پوری ٹیم ہی ‘ معاصر’ کے شایان شان ہے۔
‘ معاصر’ میں احمد جاوید، محمد حمید شاہد ، ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر ضیا الحسن اور ناصر عباس نیئر جیسے ادیبوں سمیت بہت سے نامور ادیبوں اور شاعروں کی تخلیقات شامل ہیں۔ قاسمی صاحب کچھ عرصے سے وقفے وقفے سے اپنی آپ بیتی لکھ رہے ہیں۔ پرچے میں اس آپ بیتی کا ایک باب بھی شامل ہے۔ اس تحریر میں قاسمی صاحب کے قلم شگفتگی تو شامل ہے ہی لیکن اس کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ اس میں ایک عہد سے دوسرے عہد تک پہنچتی ہوئے اقدار کی شکست و ریخت اوران کی سخت جانی کا ماجرا پڑھنے کو ملتا ہے۔ یوں یہ ماجرا ایک، فرد یا ایک ادیب کی آپ بیتی نہیں رہتی، جگ بیتی بن جاتی ہے۔ پاکستان میں گزشتہ پون صدی میں کیا کچھ ہوتا رہا ہے، یہ آپ بیتی یہی ماجرابیان کرتی ہے۔ ‘ معاصر’ کے تازہ پرچے میں شامل تخلیقات کا شاندار معیار اپنی جگہ، اس سے بڑی خوشی کی بات یہ ہے کہ اب ادیبوں اور شاعروں کو اپنی تخلیقات کے لیے ایک مؤثر اور ممتاز پلیٹ فارم مل گیا ہے۔ اللہ تعالی قاسمی صاحب کا سایہ سلامت رکھے، ادب کی شمع ان کے دم سے فروزاں ہے۔