’ڈیوس کپ‘ اور ’ایس سی او‘ کثیر فریقی ایونٹس ہیں۔ آئی سی سی چمپئنز ٹرافی بھی کچھ ایسا ہی ٹورنامنٹ ہے۔ جب ہم ٹینس کھیلنے کے لیے پاکستان جانے کو تیار ہیں، تو پھر کرکٹ کھیلنے کے لیے کیوں نہیں جائیں گے؟
اگر آپ سے میرا کوئی تنازعہ چل رہا ہے تو اسے 3 طریقے سے حل کیا جا سکتا ہے۔ پہلا طریقہ بات چیت کا ہے جس میں دونوں فریقین اپنی اپنی بات رکھتے ہیں اور پھر سمجھوتہ کا راستہ نکلتا ہے۔ حالانکہ دونوں ہی فریقین اپنے اپنے مفادات کو مرکز نگاہ رکھتے ہیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کوئی تیسرا فریق ہمارے درمیان ثالثی کرے۔ اس کے لیے ہم کسی ایسے تیسرے فریق کی تلاش کرتے ہیں جس پر دونوں فریقین بھروسہ کریں اور پھر اس کے بتائے گئے حل کو قبول کریں۔ تنازعہ کو حل کرنے کا تیسرا طریقہ طاقت کا استعمال ہے۔ اس میں کوئی ایک فریق سامنے والے پر کوئی فیصلہ تھوپ دیتا ہے اور اسے یہ فیصلہ منظور کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ تنازعہ کو حل کرنے کا کوئی چوتھا طریقہ نہیں ہے۔
ایک تنازعہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کرکٹ کے رشتوں کو لے کر چل رہا ہے۔ ہندوستان آئندہ سال چمپئنز ٹرافی کھیلنے پاکستان نہیں جانا چاہتا۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کو آئی سی سی (انٹرنیشنل کرکٹ کونسل) سے ایک ای میل موصول ہوا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ بی سی سی آئی نے انھیں مطلع کیا ہے کہ ان کی ٹیم آئی سی سی چمپئنز ٹرافی 2025 کے لیے پاکستان کا دورہ نہیں کرے گی۔
یہ وہی صورت حال ہے جو ہم گزشتہ سالوں میں دیکھ رہے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ گزشتہ حکومت میں بھی ہندوستان نے پاکستان کا دورہ کرنے یا اسے اپنے ملک مدعو کرنے سے منع کیا تھا۔ کئی بار وجہ بتائی جاتی ہے اور کئی بار نہیں۔ جب وجہ بتائی جاتی ہے تو تذکرہ کیا جاتا ہے کہ جب تک سرحد پار سے دہشت گردی بند نہیں ہو جاتی، ہم پاکستان سے سفارتی طور پر بات نہیں کریں گے، نہ ہی ثقافتی رشتوں کو آگے بڑھائیں گے۔
ان دنوں مجھے کرکٹ میں دلچسپی بہت کم ہے۔ مجھے یہ بھی نہیں پتہ کہ ہماری ٹیم کا کپتان کون ہے اور نصف ٹیسٹ ٹیم کو تو پہچان بھی نہیں سکتا۔ مجھے اس بات کی خاص فکر بھی نہیں ہے کہ ہماری ٹیم کھیلتی ہے یا باہر بیٹھتی ہے اور پوائنٹس سے محروم رہ جاتی ہے۔ میں تو یہ مضمون اس لیے لکھ رہا ہوں تاکہ حکومت کی اس حالت کا مدلل جائزہ لے سکوں کہ ’ہم دشمن سے رشتہ نہیں رکھیں گے‘۔ ٹوئٹر پر میرے ایک دوست ڈاکٹر کامتھ بتاتے ہیں کہ کرکٹ والی حالت ہندوستان کے ٹینس کھلاڑیوں پر نافذ نہیں ہوتی۔ رواں سال کے شروع میں ہی ڈیوس کپ میں ہندوستانی کھلاڑیوں نے پاکستانی کھلاڑیوں کے خلاف کھیلنے (اور جیتنے) کے لیے اسلام آباد گئے تھے۔ یہ اصول تو گزشتہ ماہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) میں حصہ لینے کے لیے اسلام آباد جانے والے ہمارے وزیر خارجہ پر بھی نافذ نہیں ہوا۔ ہماری وزارت خارجہ کی ویب سائٹ کے مطابق میٹنگ میں جئے شنکر کے شروعاتی الفاظ اس طرح تھے: ’’سب سے پہلے میں اس سال ایس سی او حکومتی سربراہان کونسل کی صدارت کے لیے پاکستان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ہندوستان نے کامیاب صدارت کے لیے اپنی پوری حمایت دی ہے۔‘‘
’ڈیوس کپ‘ اور ’ایس سی او‘ کثیر فریقی (2 سے زیادہ ممالک والے) ایونٹس ہیں۔ آئی سی سی چمپئنز ٹرافی بھی کچھ ایسا ہی ٹورنامنٹ ہے۔ جب ہم ٹینس کھیلنے کے لیے پاکستان جانے کو تیار ہیں، تو پھر کرکٹ کھیلنے کے لیے کیوں نہیں جائیں گے؟ اگر ہم ایس سی او جیسے سنجیدہ شعبہ میں پاکستان کو ’پوری حمایت‘ دے رہے ہیں، تو پھر ہم کسی غیر سنجیدہ شعبہ میں ایسا کیوں نہیں کر رہے ہیں؟
اس کا درست جواب دلیل یا سبب کے دائرے میں نہیں مل سکتا۔ سچائی یہ ہے کہ حکومت ہند نے کرکٹ کو اونچا مقام عطا کر دیا ہے۔ اسے اگر بغیر کسی جذبہ کے سمجھنے کی کوشش کی جائے تو یہ بالغ مردوں کے ذریعہ ڈنڈے سے گیند مارنے اور پھر رنوں کے لیے بھاگنے والا کھیل ہے، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ کرکٹ قومی اعزاز کا ذخیرہ نہیں ہے، اور اس کے میدانوں پر کھیلنے یا نہ کھیلنے، یا پھر جیتنے یا ہارنے سے باہری دنیا متاثر نہیں ہوتی۔
دشمن کے ساتھ کرکٹ نہ کھیلنا یقینی طور سے ہمارے مسائل کا حل نہیں۔ جیسا کہ اوپر بتایا گیا، تین طریقوں میں سے کسی ایک کے ذریعہ اس کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔ اس تنازعہ کے حل کا کوئی چوتھا طریقہ نہیں ہے۔ حریف کے ساتھ ’کٹّی‘ کرنا، جیسا کہ ہمارے اسکولوں میں بچے کرتے ہیں، اثردار یا بہتر رد عمل نہیں ہے۔ یہ بالغ نظر رکھنے والوں کا طریقہ بھی نہیں ہے۔ جیسا کہ آپ میں سے کئی لوگ پہلے سے ہی جانتے ہیں کہ یہ ہندوستانیوں (ہم نے نہ کھیل کر سخت رخ اختیار کیا) کو مدنظر رکھ کر اٹھایا گیا قدم ہے، نہ کہ دوسرے فریق کے لیے۔
چمپئنز ٹرافی کا بائیکاٹ کرنے سے پاکستان کے ساتھ ہمارے ایشوز کا حل نہیں نکلے گا۔ گزشتہ کچھ سالوں میں پاکستان کے ساتھ ہندوستان کے رشتے ایک عجیب رکاوٹ پر پہنچ گئے ہیں۔ اس وقت ہم پہلے دو متبادل یعنی بات چیت اور ثالثی کا استعمال کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، تیسرے متبادل کا استعمال نہیں کر سکتے کیونکہ دونوں ہی فریقین ایک چوتھائی صدی پہلے اپنے نیوکلیائی پروگراموں کو اسلحہ کی شکل دے چکے ہیں۔
کیا اس دوران مسئلہ کی نوعیت بدل گئی ہے؟ آئیے اعداد و شمار پر نظر ڈالتے ہیں۔ کشمیر کی تاریخ میں سب سے پرتشدد سال 2001 تھا جب 600 سے زائد سیکورٹی فورسز اور 2000 سے زائد ملی ٹینٹس سمیت مجموعی طور پر 4000 سے زائد اموات ہوئی تھیں۔ بعد ازاں ہر سال تشدد میں کمی دیکھنے کو ملی۔ 2002 میں 3000 سے کم اموات ہوئیں، 2003 میں 2000 سے کم اموات ہوئیں، پھر 2007 میں 1000 سے بھی کم اموات ہوئیں۔ مودی حکومت کے آنے سے پہلے 4 سالوں میں اموات ہر سال 200 سے کم تھیں۔ اموات کی تعداد میں اضافہ 2019 کے واقعات اور آرٹیکل 370 ختم ہونے کے بعد سے بڑھی ہیں، لیکن پھر بھی دو دہائی پہلے کی سطح تک نہیں پہنچی ہیں۔ میں نے ماضی میں جن سیکورٹی اہلکاروں سے بات کی، انھوں نے بتایا کہ لائن آف کنٹرول پر باڑ لگا دی گئی ہے اور مقامی لوگوں کے لیے دراندازی کرنا یا تربیت حاصل کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ لڑنے اور مرنے والے عام طور پر مقامی لوگ ہی ہوتے ہیں۔ کشمیر کے باہر یعنی پاکستان سے جڑے تشدد کے واقعات موجود نہیں۔ اگر ایسا ہے، تو ہمیں اس کا حل تلاش کرنے کے لیے ہمارے پاس موجود 3 طریقوں میں سے کسی ایک کا استعمال کرنا ہوگا۔ یہ خاص طور پر تب ضروری ہے جب حکومت ہمیں اشارے دے رہی ہے کہ یہ سنگین مسئلہ ہے۔ ایسے میں حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لے۔ حالانکہ وہ ایسا نہیں کر رہی ہے۔ لیکن چمپئنز ٹرافی سے متعلق اٹھائے گئے قدم سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت ایسا کرنے کا دِکھاوا یعنی نمائش ضرور کر رہی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔